Thursday, April 30, 2009

”آئی ایس آئی “ کے خلاف امریکی ‘ بھارتی اور اسرائیلی سازش

پاکستان کی سلامتی و بقا کے ضامن ادارے ”آئی ایس آئی “ کے خلاف امریکی ‘ بھارتی اور اسرائیلی سازش 
قیام پاکستان کے ساتھ ہی اس نومود مملکت کے خلاف یہود و ہنود کی جن سازشوں کا آغاز ہوا ان کے نتائج کے طور پر کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوسکا نہ ریاست جونا گڑھ پاکستان میں شامل ہوئی اور تو اور پاکستان کا ایک بازو مشرقی پاکستان بھی پاکستان سے کٹ کر بنگلہ دیش کے روپ میں تبدیل ہوگیا اور 16دسمبر 1971ء کو المیہ سقوط ڈھاکہ رونما ہوا جو پاکستان کے خلاف یہود و ہنود کے گٹھ جوڑ اور سازشوں کا بین ثبوت ہے کیونکہ کشمیر کے پاکستان کے ساتھ الحاق نہ ہونے میں جہاں برطانوی یہودی لارڈ ماؤنٹ بیٹن کا ہاتھ تھا وہیں کشمیر پاکستان کا حصہ اسلئے نہیں بن سکا کہ اس دور میں جنرل ڈگلس جیسا متعصب عیسائی پاکستانی فوج کا سربراہ تھا جبکہ سقوط مشرقی پاکستان کا کارنامہ بھارتی خفیہ ایجنسی ”را“ نے مغربی پاکستان میں موجود اپنے پاکستانی اور مشرقی پاکستان میں موجود بنگالی ایجنٹوں کی مدد سے انجام دیا۔ اس کے بعد بھی یہود وہنود کی یہ خفیہ ایجنسیاں ”را“ اور ”موساد“ پاکستان کے خلاف سرگرم عمل رہیں اور اسے نقصان پہنچانے کےلئے سازشو کے بڑے سے بڑے جال بچھائے گئے جنہیں امریکی آشیر باد بھی حاصل رہی مگر تمام تر سازشوں اور پاکستان میں کرائی جانے والی تخریب کاری کے باوجود پاکستان کے یہ دشمن اپنی مذموم سازشوں اور ارادوں میں ماضی جیسی کامیابیاں اس لئے حاصل نہیں کر پائے کہ پاکستان کی حفاظت کے فریضے میں مسلح افواج کے ہمراہ ایک اور ادارہ بھی اپنی ذمہ داری ادا کر رہا ہے جسے آئی ایس آئی کا نام دیا جاتا ہے 

دشمن کی چالوں ‘ خفیہ سازشوں ‘ ملک کو درپیش خطرات کے حوالے سے افواج پاکستان و دیگر متعلقہ فورسز اور سول قیادت کو آگاہ کرنے اور وطن عزیز کو دشمنوں کی چالوں سے بچا کر محفوظ و مستحکم رکھنے کے لئے مصروف عمل یہ ادارہ کیونکہ امریکی ‘ بھارتی اور اسرائیلی مذموم مقاصد کی راہ میں سیسہ پلائی دیوار کا کردار ادا کررہا ہے اسی لئے دشمنان پاکستان ”را“ اور ”موساد“ کی آنکھ میں شہتیر کی طرح کھٹکتا ہے یہی وجہ ہے کہ یہود و ہنود امریکہ کی مدد سے پاکستان کے ضامن اس ادارے کے خاتمے یا اس کی سرگرمیوں کو مفلوج کرانے کے لئے ہمیشہ سے سرگرم عمل رہے ہیں اور اس میں انہوں نے پہلی کامیابی اس وقت حاصل کرلی تھی جب موجودہ حکومت نے آئی ایس آئی کو وزارت داخلہ کے ماتحت کرنے کا حکم دیا مگر عسکری ‘ سیاسی ‘ سماجی ‘ عوامی حلقوں اور میڈیا کی جانب سے شدید ردِ عمل کے بعد آئی ایس آئی کے قتل کا یہ پروانہ منسوخ کرتے ہوئے واپس لے لیا گیا مگر دنیا کے نقشے سے ایک مستحکم اسلامی و ایٹمی مملکت کا وجود مٹاکر پاکستان کے حصے بخرے کرنے کے خواہشمند امریکہ ‘ اسرائیل اور بھارت امریکہ ‘ اسرائیل اور بھارت چاہتے ہیں تاکہ دنیائے اسلام میں کوئی بھی ان کی سامراجیت کے خلاف آواز اٹھانے یا بغاوت کرنے والا باقی نہ بچےمگر وہ یہ بھی وہ جانتے ہیں جب تک مسلح افواج کے شانہ بشانہ آئی ایس آئی جیسا ادارہ پاکستان کی حفاظت کی اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں سر انجام دے رہا ہے پاکستان کو نقصان پہنچانے کے ان کے ارادے کبھی بھی کامیاب نہیں ہوسکیں گے! اسی لئے ان تینوں سامراجی ممالک نے کہ ایک کثیرالمقاصد منصوبے کے تحت ممبئی دہشتگردی کا ڈرامہ رچا کر پاکستان اور آئی ایس آئی کے خلاف ایک عالمی سازش ترتیب دی اور اس سازش کے تحت امریکا نے پاکستان کی بقا کی ضمانت آئی ایس آئی کو دوسرے ممالک کےلئے خطرہ قرار دیتے ہوئے اسے سول حکومت کے ماتحت کرنے کا مطالبہ کیا ہے ۔ امریکی سینیٹر جان کیری نے چھپے لفظوں امریکی امدادی پیکیج کو آئی ایس آئی کو سول انتظامیہ کے ماتحت کرنے کی شرط سے مشروط کرتے ہوئے کہا ہے کہ ” آئی ایس آئی دوسرے ممالک کیلئے خطرہ ہے اس لئے پاکستانی حکومت کو اس پر کنٹرول کرنا چاہئے‘ پاکستانی فوج ایک مضبوط ادارہ ہے اور جنرل اشفاق پرویز کیانی اس کے سربراہ کی حیثیت سے مثبت کردار ادا کر رہے ہیں کیونکہ جنرل پرویز کیانی اور آئی ایس آئی کے سربراہ لیفٹیننٹ جنرل شجاع پاشا اچھی طرح جانتے ہیں کہ حالیہ درپیش حالات میں انہیں کیا کرنا چاہئے۔انہوں نے دہشت گردی کیخلاف جنگ میں صدر آصف علی زرداری کے کردار کو سراہتے ہوئے کہا کہ پاکستان کی موجودہ حکومت جمہوری طور پر منتخب حکومت ہے اور وہ بھرپور جمہوری انتخابات کے بعد وجود میں آئی ہے۔ اس لئے ہم اس کی مدد کریں گے“گوکہ سینیٹر جان کیری نے ممبئی دہشتگردی سے پاکستان اور آئی ایس آئی کو بری الذمہ قرار دیتے ہوئے کہاہے کہ ممبئی دہشت گرد حملوں میں پاکستان یا آئی ایس آئی کے ملوث ہونے کے کوئی شواہد نہیں ملے“مگر اس کے باوجود بھی آئی ایس آئی کو سول حکومت کے ماتحت کرنے کے ان کے مطالبے نے اس بات کو ثابت کردیا ہے کہ ان کی پوری گفتگو تمہید پر مشتمل تھی جس کا مقصد پاکستانی قیادت کو یہ باور کرانا تھا کہ امریکی امداد آئی ایس آئی کو سول حکومت کے ماتحت کرنے یادوسرے لفظوں میں عملاً اسے قتل کر کے پاکستان کی سالمیت کو خطرے میں ڈالنے سے مشروط کردی گئی ہے ۔ ہمارے حکمرانوں کو امریکہ کی اس سازش اور مطالبے پر عمل تو درکنار غور تک کرنے کی ضرورت نہیں ہے کیونکہ پاکستانی قوم یہ بات اچھی طرح جانتی ہے کہ پاکستان کی آزادی و تشخص صرف اس وقت تک قائم ہیں جب تک مسلح افواج اور آئی ایس آئی مشترکہ طور پر اس کی حفاظت کا فریضہ انجام دے رہی ہیں اور ان میں سے کسی بھی ایک کو دوسرے سے جدا یا ختم کیا گیا تو پھر یقینا یہی ملک قائم نہیں رہ سکے گا اس لئے ہماری حکومت کو صاحب امریکہ بہادر کے ترجمان ‘ صدر امریکہ بارک اوبامہ کے معتمد خاص سینیٹر جان کیری کو یہ باور کرادینا چاہئے کہ ”ہمیں اپنی آزادی اور سلامتی کے بدلے امریکہ یا کسی بھی امداد قبول نہیں ہے“ 

Monday, April 27, 2009

واجد شمس الحسن مستعفی ہوں

واجد شمس الحسن مستعفی ہوں

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ 24 اپریل ، 2009
برطانیہ میں شرمناک طریقے سے پاکستانی طلبہ کو گرفتار کیا گیا اور اذیت ناک طریقے سے رہا کیا گیا۔ دونوں کام بڑی تسلی سے انہوں نے خود کیا۔ پاکستانی حکومت اور پاکستانی سفارت خانے نے کچھ نہیں کئے۔ دونوں کا رویہ بے بسی‘ بے حسی بلکہ بے غیرتی کا رہا۔ سابق سیکرٹری خارجہ دانش اور دردمندی سے لبریز شخص شمشاد احمد خان نے کہا کہ اگر میں سیکرٹری خارجہ ہوتا تو فوراً برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن سے جواب طلبی کرتا۔ گزارش شمشاد صاحب سے یہ ہے کہ صرف جواب طلبی بہت کم ہے۔ اس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہئے مگر وہ تو سفارت کاری کے محکمے کا آدمی ہی نہیں۔ وہ تو صحافی ہے اور اس نے زرداری صاحب‘ رحمان ملک اور پیپلزپارٹی کے لئے کچھ کالم لکھے ہونگے۔ جس کے صلے میں اسے یہ منصب دے دیا گیا ہے اس سے پہلے ڈاکٹر ملیحہ لودھی بھی صحافی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے قریب ہوئیں پھر جنرل پرویز مشرف کے عنقریب ہو گئیں۔ سیاست کے علاوہ صحافت میں بھی لوٹا ازم ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی بھی ایسے ہی ہیں۔ کبھی وہ نواز شریف کے بڑے چہیتے تھے۔ پھر بے نظیر بھٹو کے لاڈلے ہو گئے اور پھر آصف زرداری کے گہرے دوست بن گئے۔ ان کی اہلیہ فرح اصفہانی پیپلزپارٹی کی ایم این اے ہیں اور ایوان صدر میں زیادہ قومی اسمبلی میں کم نظر آتی ہیں۔ برادرم عطاء الحق قاسمی ممتاز صحافی ہیں اور ناروے میں سفیر تھے۔ ان کی یہ بات اہم ہے کہ وہ نواز شریف کے اب تک ساتھ ہیں۔ وہ صحافت میں سفارت کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ بہرحال واجد شمس الحسن اچھے سفیر ثابت نہیں ہوئے جبکہ اس حوالے سے صحافیوں کی کارکردگی بری نہیں۔ پاکستانی حکومت امریکہ اور یورپ کے حوالے سے بہت محتاط اور خوفزدہ رہتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ کسی ملک کا آدمی اس طرح پھنس جائے تو متعلقہ حکومتیں بہت کچھ کر گزرتی ہیں۔ برطانیہ کے ایک صحافی کے لئے شہزادہ چارلس بذات خود پاکستان آئے تھے۔ صدر زرداری‘ وزیراعظم گیلانی‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر داخلہ رحمان ملک نے بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔
اگر یہ طالب علم کسی وزیر شذیر‘ امیر کبیر یا افسر وغیرہ کے بیٹے ہوتے تو اب تک طوفان آچکا ہوتا۔ اپنے ایک دوست کے بیٹے کے لئے پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ عارف نکئی خود تھانے پہنچ گئے تھے۔ اس طرح کے لوگوں پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جاتا۔ برطانیہ کے لئے مشہور ہے کہ وہ قانون پسند ملک ہے مگر ان کا قانون پاکستان کے لئے مختلف ہے۔ وہ کسی اور ملک کے طالب علموں کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے کسی بڑے چھوٹے آدمی کو کسی قابل نہیں سمجھتے۔ مگر عام پاکستانیوں کو وہ بھی خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ جب انہیں ایک لائبریری میں سے گن پوائنٹ پر گرفتار کیا گیا وہاں بھی زمین پر لٹا کے تشدد کیا گیا۔ انہیں صرف شک کی بنا پر ذلیل و خوار کیا گیا۔ پاکستانیوں کے لئے ان کا شک ہی ان کا یقین ہے۔ پاکستانی ہونا ہی اصل قصور ہے۔ دہشت گردی کے الزام کے لئے صرف پاکستانی ہونا کافی ہے چونکہ یہ لڑکے پاکستانی تھے تو برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن اور وزیر خارجہ ملی بینڈ نے بھی دلچسپی لی۔ تفتیش پاکستانی انداز میں کی گئی۔ جوتا بھی کسی پاکستانی تھانے سے برآمد کیا گیا ہو گا۔ اس کے باوجود وہ کچھ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے لئے انہوں نے معافی بھی نہیں مانگی۔ بس یہ کہ انہوں نے بے گناہ پاکستانی سٹوڈنٹس کو معاف کر دیا۔ وہ تو انہیں ڈیپورٹ کر کے پاکستان واپس بھیجنا چاہتے ہیں اور بھیج دیں گے کہ پاکستانی سفارت خانہ اور پاکستانی حکومت کیا کر لے گی۔ اس حوالے سے لارڈ نذیر کا کردار قابل تعریف ہے۔ وہ برطانوی شہری ہیں اور ہاؤس آف لارڈز کے ممبر ہیں۔
چاہئیے تو یہ تھا کہ برطانوی پولیس اور ایجنسیوں کے جس آدمی نے یہ سارا منصوبہ بنایا ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کیا برطانیہ یا کسی اور غیرت مند ملک کے طالب علموں کے ساتھ ایسا انسانیت سوز اور تعلیم دشمن سلوک کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی جرم ہے اور اس کی سزا متعلقہ لوگوں کو دی جائے۔ ہمارے ہائی کمشنر تو ہر صورت میں مستعفی ہوں۔ آخر ایک سفارت کار کا کام کیا ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر سفارت کار ایسے ہیں کہ ان سے استعفیٰ لیا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں۔ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے امریکی اشارے پر بہت شور مچاتی ہیں۔ این جی اوز والیاں اس معاملے میں خاموش کیوں ہیں۔ کسی ایک ایسی خاتون نے کوئی بات نہیں کی۔ حقوق صرف وہ ہیں جن کے لئے تحریک چلائی جائے کہ امریکہ سے فنڈز ملیں اور جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ یورپ اور امریکہ ہی کیوں جاتے ہیں۔ چین کیوں نہیں جاتے۔ چین اب دنیا میں ہر معاملے میں آگے ہے۔ شاید چین میں عیاشی نہیں۔ ورنہ میرے رسول عالم حضرت محمدﷺ نے کہا تھا کہ ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ یہ ہدایت ہے جس پر ہمیں عمل کر کے ہی فائدہ ہو گا۔ وہاں سب کچھ ہے جدید سائنسی علوم‘ ٹیکنالوجی اور عزت۔ ہمیں عزت نہیں چاہئے اب ہم یورپ اور امریکہ صرف اپنی بے عزتی کرانے جاتے ہیں۔ ہم بھکاری ہیں اور بھکاری کو عزت راس نہیں۔ عام آدمی کو اپنے ملک پاکستان میں عزت نہیں ملتی۔
برطانیہ میں نمبر دو یونیورسٹیاں بہت ہیں جہاں ڈگریاں بکتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی طالب علموں کو ذلیل کر کے نکالتے رہتے ہیں تاکہ دوسرے طلبہ سے فیسیں وغیرہ حاصل کی جائیں۔ پاکستان میں بھی اس طرز پر یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں۔ دو دو کمروں میں یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ اب کچی آبادیوں اور جھگیوں میں بھی یونیورسٹیاں ہونگی۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں بے روزگاری ہے۔ معاشی بحران ہے۔ وہاں ایک نعرہ چلا ہوا ہے۔ برٹش جاب اونلی فار برٹش نیشنل (برطانوی ر وزگار صرف برطانویوں کیلئے) اب وہ غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستانیوں کو نکال باہر کرنا آسان ہے۔ نہ پاکستانی حکومت غیرت کرتی ہے نہ پاکستانی سفارت خانہ احتجاج کرتا ہے۔ محتاج لوگ احتجاج نہیں کر سکتے۔ !!

پاکستان زندہ باد

پاکستان زندہ باد

محمد آصف بھلّی
میں ایک دوست کے دفتر میں بیٹھا ہوا تھا کہ انہیں ایک خط موصول ہوا۔ یہ خط برطانیہ کے ایک پبلشنگ ہاؤس کی جانب سے تھا۔ خط میں مکتوب الیہ کا نام و پتہ اور شہر کا نام درست تھا لیکن شہر کے نام کے بعد پنجاب کے ساتھ ساتھ انڈیا تحریر کر دیا گیا تھا۔ انڈیا میں بھی اگرچہ مشرقی پنجاب ہے۔ لیکن سیالکوٹ جو پاکستان کا ایک اہم شہر ہے اس کے ساتھ انڈیا تحریر کر دنیا خط بھیجنے والے کی لاعلمی کا منہ بولتا ثبوت تھا۔ بظاہر یہ ایک معمولی غلطی محسوس ہوتی ہے لیکن اس غلطی کو میں نے شدت کے ساتھ اس لئے محسوس کیا ہے کہ میں نے بیرون پاکستان مقیم اپنے احباب سے متعدد بار یہ سنا ہے کہ وہاں بہت سے لوگ پاکستان کے بارے میں نہیں جانتے تاہم انڈیا کی بطور ملک پہچان ہر کسی کو ہے۔ یہ بات کس قدر تکلیف دہ ہے کہ برطانیہ میں ایک اشاعتی ادارہ جس کا کام ہی تعلیمی کتب شائع کرنا ہے وہ پاکستان کے کسی شہر میں اپنے کسٹمر کے نام خط بھیجتا ہے تو خط پر شہر کے نام کے ساتھ پاکستان کے بجائے انڈیا تحریر کر دیتا ہے۔ میری رائے میں پاکستان کے محکمہ ڈاک کو ایسا خط وصول ہی نہیں کرنا چاہئے جس پر پاکستان کے کسی شہر کے نام کے ساتھ انڈیا لکھا ہو۔ ایسا خط بھیجنے والے کو واپس بھجوا دینا چاہئے اور محکمہ ڈاک کی طرف سے پاکستان کا ایک مختصر تعارف بھی خط بھیجنے والے کے نام ارسال کرنا چاہئے تاکہ خط بھیجنے والے کی پاکستان کے وجود کے حوالے سے لاعلمی دور ہو جائے۔ حکومت پاکستان کو پاکستان کی تاریخ‘ اساسی نظریے محل وقوع‘ آبادی کی تعداد اور پاکستان کی سیاسی اور جغرافیائی اہمیت کے بارے میں ایک مختصر مگر جامع کتابچہ تحریر کروانا چاہئے۔ جس کی اشاعت کروڑوں میں ہونی چاہئے اور یہ کتابچہ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے عنوان سے دنیا کے کونے کونے میں پہنچانا چاہئے۔ بیرون پاکستان دنیا بھر میں ہمارے جو سفارت کار موجود ہیں ان کا بھی یہ فرض ہے کہ پاکستان کا بطور ملک تعارف اور شناخت ہر کہیں ہونی چاہئے اور پاکستان کی بطور ریاست جو اہمیت ہے اسے اجاگر کرنے میں سفارت کاروں کے ساتھ ساتھ بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کو بھی کوئی کسر باقی نہیں چھوڑنی چاہئے۔
پاکستان کے ایک مایہ ناز مصور اسلم کمال اکثر مجھے خط لکھتے ہیں تو وہ خط پر میرے پتے اور شہر کے نام کے ساتھ ’’پاکستان زندہ باد‘‘ کے الفاظ لکھنا نہیں بھولتے۔ اسلم کمال کا یہ جذبہ حب الوطنی ہر ایک پاکستانی کے دل میں موجزن ہونا چاہئے۔ پاکستان سے باہر ہمارے پاکستانی بھائی جس ملک میں بھی موجود ہیں انہیں پاکستان میں اپنے احباب اور عزیز و اقارب کو خط لکھتے ہوئے شعوری طور پر یہ کوشش کرنی چاہئے کہ وہ خط پر پاکستان کا لفظ تحریر کرتے ہوئے اس کے ساتھ زندہ باد کا اضافہ ضرور کریں۔

صوفی محمد، آئین پاکستان اور جنرل مشرف

مولانا صوفی محمد نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے آئین پاکستان غیر شرعی نہیں۔ وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے۔ مولانا کو عمل بھی اس رائے کے مطابق کرنا چاہئے۔ جناب مولانا کے ایماء پر طالبان نے بونیر کا علاقہ خالی کردیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا ہے۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی کو ساری توجہات سوات کے نظام عدل کو کامیاب بنانے پر مرکوز کر دینی چاہئیں۔ اہل سوات کو اس نظام کے ذریعے جس قدر سستا جلد اور شرعی اصولوں کے تحت انصاف ملے گا۔ ملک بھر میں اسے اتنی پذیرائی ملے گی۔ سوات ماڈل کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا تو صوفی محمد صاحب کو سپریم کورٹ اور جمہوریت کے خلاف متنازعہ بیانات دینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ رائے عامہ آپ کے مطالبات کے حق میں ہموار ہو جائے گی۔ سارے ملک میں شریعت جمہوری عمل کے ذریعے نافذ کی جا سکتی ہے۔
آئین کے حق میں صوفی محمد صاحب کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا ہے اور جمہوری پاکستان کے منتخب نمائندوں کی تیار اور نافذ کردہ یہ متفق علیہ قومی دستاویز جو بیک وقت اسلامی بھی اور جمہوی بھی ہر ایک کی نظر میں محترم اور بالادست ہے۔ اس کے بارے میں دو رائے نہیں پائی جاتیں۔ یہ آئین اپنی اصل حالت میں جتنا زیادہ نافذ اور مؤثر ہوگا۔ قومی اتحاد اور یکجہتی میں اسی تناسب سے اضافہ ہو گا۔ ابھی تک آئین کے حسین ماتھے پر فوجی آمریت کے لگائے ہوئے سترہویں ترمیم کے بدنما داغ کو مٹایا نہیں جا سکا۔ اگرچہ بہت وعدے کئے گئے ہیں اٹھارہویں ترمیم کا حتمی مسودہ قائم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی کمیٹی کے حق میں قرارداد بھی منظور ہو گئی ہے لیکن کمیٹی بن نہیں پا رہی۔ آخر کیوں اور تاخیر کس لئے۔ جب تک کتاب آئین میں یہ سقم رہے گا اس کے مکمل نفاذ کی خاطر حکومتی اپیلوں اور اقدامات کے اندر بھی ضروری اصولی اور اخلاقی طاقت پیدا نہ ہوگی۔ جہاں صوفی محمد صاحب اور تحریک طالبان پاکستان سے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اپنی سرگرمیوں کے دوران آئینی حدود کو پامال نہ کریں۔ وہیں قوم اپنے حکمرانوں سے توقع کرتی ہے۔ وہ ہر ہر قدم پر آئینی اداروں کا پاس لحاظ کریں گے اور کسی حوالے سے یہ تاثر نہیں پیدا ہونے دیں گے کہ اہم امور پر ان کی ملاقاتوں اور فیصلوں کے وقت دستوری طرز عمل یا اداروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جمعہ 24 اپریل کو طالبان کی بونیر تک یلغار اور اس سے بھی آگے بڑھ جانے کے خدشات کی روک تھام کی خاطر ایوان صدر میں جناب صدر، وزیراعظم، چیف آف دی آرمی سٹاف، وزیر خارجہ اور جناب اسفند یار ولی کے مابین مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اگلے روز اخبارات نے اسے ٹرائیکا کے اجلاس کا نام دیا ہے۔ یہ کیا چیز ہے۔ اس کی آئینی حیثیت کیا ہے اور اسے کس قسم کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ آئین کی رو سے حکومت اور فوجی قیادت کی باہمی مشاورت کے لئے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا باقاعدہ ادارہ موجود ہے اگر ضرورت تھی تو اس کا اجلاس منعقد کیا جاتا۔ اس سے آئینی ادارہ اور طرز عمل دونوں مضبوط ہوتے۔ اہل وطن جاننا چاہتے ہیں ایسا کیوں نہیں ہوا۔
جنرل مشرف نے انگڑائی لی ہے۔ کہا ہے وہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لئے تیار ہیں تاکہ حالات میں سدھار پیدا کریں۔ سبحان اللہ۔ اس وقت جو بگاڑ پایا جاتا ہے وہ آپ ہی کے آٹھ سالہ درو آمریت کا کرشمہ ہے۔ جو بلاشبہ قوم کے لئے روگ جان بنی ہوئی ہیں وہ آپ کی بندوق کی نالی پر قائم کردہ حکومت کا شاخسانہ ہیں۔ اب دوبارہ حکومت کی باگیں ہاتھ میں لیکر آپ رہی سہی کسر پوری کرنا چاہتے ہیں اور ملک کا آخری حد تک ستیاناس کرنے کے درپے آزاد ہیں۔ جنرل مشرف نے دوبارہ حکومت سنبھالنے کی پیشکش قوم کو نہیں کی۔ اس نے یہ بیان دے کر امریکہ کو باور کرایا ہے۔آپ کا جتنا وفادار ایجنٹ میں تھا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستانی حکومت اور فوج آپ کے احکامات پوری طرح بجا نہیں لا رہی تو وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر میرے جیسا کتوں سے پیار کرنے والا آپ کا وفادار نہیں پایا جاتا۔

نصیبو لال کے گانوں پر پابندی

نصیبو لال

نصیبو لال پنجابی فلموں میں گانوں کی وجہ سے مشہور ہوئیں

لاہور ہائی کورٹ نے پنجابی کی معروف گلو کارہ نصیبو لال اور ان کی بہن نورو لال کے اکتالیس گائے ہوئے گانوں کےرکیسٹ بازار میں لانے پر پابندی عائد کر دی ہے۔

ایڈوکیٹ آصف محمود خان نے لاہور ہائی کورٹ میں نصیبو لال کے اکتالیس گانوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے درخواست دی کہ نصیبو لال کے گانے فحش ہیں اور ان کے گانوں سے نوجوان نسل کا اخلاق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے۔

ایڈوکیٹ آصف محمود خان نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ جسٹس اعجاز چوہدری نے ایڈوکیٹ آصف محمود کی اس درخواست پر پیر کے روز نصیبو لال اور ان کی بہن نورو لال کے گائے ہوئے گانوں کو مقدمے کا فیصلہ آنے تک نشر کرنے پر پابندی عائد کر دی ہے۔ عدالت کا فیصلہ آنے تک یہ دونوں بہنیں گانوں کی نئی کیسٹ بازار میں نہیں لا سکتیں۔

ایڈوکیٹ آصف محمود خان نے لاہور ہائی کورٹ میں نصیبو لال کے اکتالیس گانوں کو ثبوت کے طور پر پیش کرتے ہوئے درخواست دی کہ نصیبو لال کے گانے فحش ہیں اور اس کے گانوں سے نوجوان نسل کے اخلاق متاثر ہونے کا اندیشہ ہے

عدالت نے 25 مئی کو اٹارنی جرنل پاکستان، چئرمین سنسر بورڈ اور دونوں گلوکاراؤں نصیبو لال اور نورو لال کو عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔
نصیبو لال ایک عشرے سے زیادہ وقت سے پاکستانی فلموں میں گانے گا رہی ہیں اور وہ عوامی سطح پر کافی مقبول ہیں اور ان کے گانے پسند بھی کیے جاتے ہیں لیکن دوسری جانب معاشرے کے سنجیدہ حلقوں کی جانب سے ان کے گانوں پر اعتراض بھی کیا جاتا ہے۔

میڈم نور جہان نے جب بیماری کے دور میں جب وہ گا نہیں سکتی تھیں نصیبو لال کا گانا سرور نامی ایک پروڈیوسر نےسنا اور وہ انہیں موسیقار الطاف عرف طافو کے پاس لے گئے جنہوں نے انہیں فلم انڈسٹری میں روشناس کرایا۔

نصیبو لال کے جن گانوں کو مبینہ طور پر فحش قرار دیا جاتا ہے ان میں زیادہ تر نغمہ نگار الطاف باجوہ کے لکھے ہوئے گانے ہیں اور ان کی موسیقی موسیقار طافو دیتے ہیں۔ نصیبو لال کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ گڑوی بجا کر گلیوں محلوں میں گانے گایا کرتیں تھیں۔

خود کش حملے حرام

’خود کش حملے حرام‘

پنجاب حکومت نے دہشتگردی کے خلاف اشتہاری مہم کا آغاز کیا ہے

حکومت پنجاب نے دہشت گردی کے خلاف ایک اشتہاری مہم کا آغاز کیا ہے اور اس سلسلہ میں اتوار کے صبح شائع ہونے والے قومی اخبارات میں علماء کرام کا ایک مشترکہ اعلامیہ سرکاری اشتہار کی شکل میں شائع ہوا ہے جس میں خود کش حملوں کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

حکومت پنجاب کی طرف سے شائع ہونے والے اس اشتہار میں بتایاگیا ہے کہ سولہ اپریل کو وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کی زیر صدارت متحدہ علما بورڈ کا اجلاس ہوا ہے جس میں تمام مسالک اور مکاتب فکر کے نمائندہ علما اور دینی شخصیات موجود تھیں۔

احْباری اشتہار کے مطابق اس اجلاس میں شامل علماء نے اس امر کا اعادہ کیا کہ ٹارگٹ کلنگ اور سکیورٹی فورسز پر حملے جیسے افعال کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں ہے۔

پنجاب آبادی کے لحاظ سے پاکستان کا سب سے بڑا صوبہ ہے اور یہ کہا جا رہا ہے کہ صوبہ سرحد کے بعد دہشتگردوں کا اگلا ہدف جنوبی پنجاب ہوسکتا ہے۔

دہشتگردی کے خلاف اس اخباری اشتہار میں صوبے کے آٹھ ڈویژنوں کے لگ بھگ دو سو علماء کرام کے نام شائع کیےگئے ہیں اور بتایاگیا کہ مشترکہ اعلامیہ میں شامل بنیادی شحضیات میں وفاقی وزیر مذہبی امور صاحبزادہ حامد سعید کاظمی، پنجاب کے وزیر مذہبی امور احسان الدین قریشی کے علاوہ متحدہ بورڈ پنجاب کےسربراہ صاحبزازہ فضل کریم شامل ہیں۔

اجلاس میں پانچ اپریل کو چکوال کی امام بارگاہ اور پندرہ اپریل کو چارسدہ میں سکیورٹی فررسز پر خودکش حملے کی مذمت کی گئی ہے

اشتہار کے مطابق اجلاس میں کہا گیا ہے کہ فاٹا اور سوات میں دہشتگردی کی ایک بنیادی وجہ شمالی وزیر ستان میں ڈرون کے حملے ہیں۔ اجلاس میں موجود علما نےیہ مطالبہ کیا ہے امریکہ اپنی کارروائیوں کو بند کرے کیونکہ بقول ان کے یہ کارروائیاں اقوام متحدہ کے چارٹر کی کھلی خلاف وزری ہیں۔

اشتہار میں مزید کہا گیا کہ اقوام متحدہ اور قومی سلامتی کونسل اپنی قرار داد کے ذریعے پاکستان کی داخلی خود مختاری اور سرحدوں کی خلاف وزری سے تلعق رکھنے والی امریکی کارروائیوں کی مذمت کرے۔

Tuesday, April 21, 2009

عالمی طاقتیں پاکستان توڑنا چاہتی ہیں‘

’عالمی طاقتیں پاکستان توڑنا چاہتی ہیں‘

اویس غنی

دنیا میں نہ کوئی دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی بلکہ مفاد ہوتا ہے: اویس غنی

صوبہ سرحد کے گورنر اویس احمد غنی نے کہا ہے کہ پاکستان میں ایک بڑی قوم کی تمام تر صلاحتیں موجود ہیں لیکن بدقسمتی سے عالمی طاقتیں اس ملک کو ٹکڑے ٹکڑے کرنا چاہتی ہیں۔

پیر کوگورنر ہاؤس پشاور میں قبائلی صحافیوں کی تنظیم ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کی نومنتخب اراکین کی تقریب حلف برداری سے خطاب کرتے ہوئے گورنر نے کہا کہ قبائلی علاقے اس وقت پوری دنیا کی توجہ کا مرکز بنے ہوئے ہیں جس کی کئی وجوہات اور محرکات ہیں تاہم اس خطے کی تاریخ بتاتی ہے کہ یہاں کسی غیر طاقت کو اپنے قدم جمانے کا موقع نہیں ملا۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان چار بڑی اقوام پر مشتمل ہے جن میں ایک بڑی قوم کی تمام تر صلاحیتیں موجود ہیں لیکن بین الاقوامی طاقتیں اس کو ایک مضبوط قوم کے طورپر دیکھنا نہیں چاہتی بلکہ وہ اس کو تقسیم کرنے کی کوششیں کررہی ہیں۔

اویس غنی نے اس تاثر کو غلط قرار دیا کہ دنیا میں پاکستان کا کوئی دوست نہیں۔ ’ہمارا سب سے بڑا دوست اللہ تعالٰی کی ذات ہے اور اس کے علاوہ دنیا میں نہ کوئی دوستی ہوتی ہے نہ دشمنی بلکہ مفاد ہوتا ہے۔‘

بحثیت قوم اور اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمیں کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے ملک کا ایجنڈا آگے لے کر چلنا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے ملکی مفاد کو دیکھنا چاہیے۔

اویس غنی

گورنر کا کہنا تھا کہ پاکستان اسلامی دنیا کی واحد ایٹمی قوت ہے اور یہ طاقت اس ملک نے عالمی طاقتوں کی طرف سے شدید مخالفت کے باجود اپنے زور بازو سے حاصل کی ہے۔ انہوں نے کہا کہ دنیا میں اقوام عالم کے شانہ بشانہ چلنے کے لیے ہمیں اقتصادی، سیاسی اور عسکری طاقت حاصل کرنا ہوں گی کیونکہ عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کے لیے طاقتور ہونا ضروری ہے۔

’اگر دنیا پاکستان کے ساتھ باکسنگ کررہی ہے تو پھر ہمارے پاس بھی اس کے علاوہ اور کوئی چارہ نہیں رہے گا کہ ہم بھی ان کا مقابلہ کریں اور اس کا جواب دیں۔‘ انہوں نے کہا کہ جب کوئی کمزور بڑی طاقت کے سامنے پھنس جاتا ہے تو پھر کمزور کے پاس اس کے علاوہ اور کوئی طریقہ نہیں ہوتا سوائے اس کے کہ کمزور طاقتور کے خلاف لڑنے نکل پڑے۔

انہوں نے کہا کہ بحثیت قوم اور اس ملک کے شہری ہونے کے ناطے ہمیں کسی اور کا نہیں بلکہ اپنے ملک کا ایجنڈا آگے لے کر چلنا چاہیے کیونکہ ہمیں اپنے ملکی مفاد کو دیکھنا چاہیے۔ گورنر نے مزید بتایا کہ خطے کے حالات کو دیکھتے ہوئے اردگرد تمام مسائل ہی مسائل ہیں لیکن ان مشکلات کا مقابلہ کرنے کے لیے ہمیں متحد ہونا ہوگا۔

اس سے قبل گورنر نے ٹرائیبل یونین آف جرنلسٹس کے نومنتخب اراکین سے حلف لیا۔ تقریب سے ٹی یو جے کے بانی رہنما سیلاب محسود اور نو منتخب صدر شیر خان آفریدی نے بھی خطاب کیا اور قبائلی صحافیوں کو درپش مسائل پر روشنی ڈالی۔

Saturday, April 18, 2009

فرینڈز آف پاکستان:سوال و جواب

فرینڈز آف پاکستان:سوال و جواب

فرینڈز آف پاکستان گروپ میں تیس کے قریب ممالک اور ادارے شامل ہیں

جمعہ کو جاپان کے دارالحکومت ٹوکیو میں’فرینڈز آف پاکستان‘ کے دوسرے اجلاس میں پاکستان کے لیے پانچ ارب ڈالر سے زائد کی امداد کے وعدے کیے گئے ہیں۔

پاکستان کی معیشت گزشتہ ایک برس کے دوران معاشی و اقتصادی زبوں حالی کا شکار رہی ہے۔گزشتہ برس نومبر میں پاکستان میں توازنِ ادائیگی کا شدید بحران پیدا ہوگیا تھا اور عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے سخت شرائط پر ساڑھے سات ارب ڈالر سے زائد کے خصوصی قرض نے ہی اسے سہارا دیا تھا۔

دنیا بھر میں جاری اقتصادی بحران نے بقیہ ممالک کی طرح پاکستان کی پہلے سے بیمار معیشت کو مزید متاثر کیا اور سنہ 09/ 2008 کے لیے سالانہ شرحِ ترقی کو تخمینہ ڈھائی سے ساڑھے تین فیصد کے درمیان لگایا گیا ہے جوگزشتہ مالی سال کی پانچ اعشاریہ آٹھ فیصد کے مقابلے میں قابلِ ذکر کمی ہے۔

تاہم اس کے باوجود پاکستان کے معاشی حالات میں بہتری کے آثار دکھائی دینا شروع ہو چکے ہیں اور ملک میں افراطِ زر کی شرح جوگزشتہ برس اگست میں پچیس اعشاریہ تین فیصد کی ریکارڈ سطح پر تھی رواں برس مارچ کے مہینے میں کم ہو کر انیس اعشاریہ صفر سات فیصد پر آ گئی ہے جبکہ ملک کے زرِمبادلہ کے ذخائرگزشتہ برس نومبر کے چھ اعشاریہ چھ ارب ڈالر کے مقابلے میں گیارہ اعشاریہ ایک سات ارب ڈالر کی حد تک پہنچ گئے ہیں۔ یہی نہیں بلکہ پاکستان نے عالمی مالیاتی فنڈ کی جانب سے مقرر کیے جانے والے اہداف بھی پورے کیے ہیں۔

فرینڈز آف پاکستان کون ہیں اور وہ کیا کر رہے ہیں؟

٭ فرینڈز آف پاکستان گروپ کا قیام چھبیس ستمبر سنہ 2008 کو نیویارک میں عمل میں آیا تھا۔ اس گروپ کے قیام کا مقصد علاقے کی سکیورٹی کے اہم جزو ہونے کے ناتے پاکستان کو مستحکم بنانے کے لیے سیاسی و اقتصادی امداد کی فراہمی تھا۔

٭ یہ گروپ خصوصاً دہشتگردی کے خلاف جنگ اور اقتصادی ترقی کے شعبے میں پاکستان کی مدد کرنے کا ارادہ رکھتا ہے۔

٭ اس گروپ میں امریکہ، آسٹریلیا، برطانیہ، کینیڈا، چین، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان، سعودی عرب، ترکی، متحدہ عرب امارات جیسے ممالک اور اقوامِ متحدہ اور یورپی یونین شامل ہیں۔

٭ اس گروپ کی توجہ پانچ چیزوں پر مرکوز ہے جن میں پاکستان کا استحکام اور ترقی، شعبۂ توانائی، اداروں کا قیام اور پاک افغان سرحد پر واقع علاقے شامل ہیں۔

٭ یہ گروپ امدادی وعدے کرنے والا فورم نہیں ہے

پاکستان فرینڈز آف پاکستان سے کیا چاہتا ہے؟

٭ پاکستان چاہتا ہے کہ آنے والے دس برس کے دوران ملک میں تیس ارب ڈالر کے مختلف منصوبوں کے لیے اسے امداد فراہم کی جائے

٭ ان منصوبوں میں ہائیڈرو الیکٹرک ڈیم اور سڑکوں کی تعمیر اور سکیورٹی میں اضافے کے منصوبے شامل ہیں۔

٭ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ ایک ایسا ’مارشل منصوبہ‘ چاہتا ہے جس پر امریکہ نے دوسری جنگِ عظیم کے بعد یورپ میں ترقی کے لیے عمل کیا تھا۔

امداد کے حوالے سے پاکستان کی توقعات کیا ہیں؟

٭ پاکستان کو امید تھی کہ اسے اپنے مالیاتی خسارے کو پورا کرنے کے لیے چار ارب ڈالر کی امداد مل جائے جسے غربت کے خاتمے، تعلیم اور صحت کے شعبوں پر خرچ کیا جائے گا۔ یہ وہ شعبہ جات ہیں جو مالیاتی بحران کی وجہ سے کٹوتیوں کا شکار رہے ہیں۔ تاہم اس کانفرنس میں شریک ممالک نے پاکستان کی امید سے زائد یعنی پانچ ارب ڈالر سے زائد امداد کا وعدہ کیا ہے۔

کون کتنی امداد دے چکا ہے یا دے رہا ہے؟

٭ جاپان اور امریکہ نے کانفرنس کے آغاز سے قبل ہی ایک ایک ارب ڈالر کی امداد دینے کا وعدہ کیا ہے جو دو برس کے عرصے کے دوران دی جائے گی۔

٭امریکی امداد کے ایک ارب ڈالر اس ڈیڑھ ارب ڈالر سالانہ امداد کی پیشگی ادائیگی ہے جو آنے والے پانچ برس تک امریکہ پاکستان کو دے گا۔

٭ کانفرنس کے دوران سعودی عرب نے ستّر، ایران نے تینتیس جبکہ ترکی نے دس کروڑ ڈالر کی امداد کے وعدے کیے ہیں۔

٭عالمی بینک نے گزشتہ ماہ پاکستان کو پانچ سو ملین ڈالر کا بلاسود قرضہ فراہم کیا ہے۔ فروری سنہ 2009 میں عالمی بینک نے کہا ہے کہ وہ رواں برس پاکستان کو دو ارب ڈالر دے گا۔ اس کے علاوہ چین نے جنوری میں پاکستان کے زدِ مبادلہ کے ذخائر کو تقویت بحشنے کے لیے پانچ سو ملین ڈالر دیے تھے۔

لال مسجد کےامام مولاناعزیز کی رہائی

لال مسجد کےامام مولاناعزیز کی رہائی

مولانا عبد العزیز

مولانا عبدالعزیز کو دو ہزار سات میں لال مسجد سے فرار ہوتے ہوئے گرفتار کیا گیا تھا

لال مسجد کے سابق خطیب مولانا عبدالعزیز کو جمعرات کو ضمانت پر رہا کردیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے تین رکنی بینچ نے بدھ کے روزاُن کی ضمانت کی درخواست منظور کر لی تھی۔


مولانا عبدالعزیز کے خلاف 27 مقدمات درج کیے گئے تھے جن میں سے 26 مقدمات میں اُن کی ضمانت ہوچکی ہے جبکہ ایک مقدمے میں اُنہیں بری کردیا گیا تھا۔

جولائی 2007 میں لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے خلاف فوجی آپریشن کے دوران لال مسجد کے سابق خطیب کو اُس وقت گرفتار کیا گیا تھا جب وہ برقعہ پہن کر فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔

اسلام آباد کی انتظامیہ نے مولانا عبدالعزیز کو اڈیالہ جیل میں رکھنے کی بجائے ایک گھر میں رکھا ہوا تھا جسے سب جیل قرار دیا گیا تھا۔ مولانا کے اہلخانہ بھی اُن کےساتھ رہائش پذیر تھے۔

لال مسجد آپریشن کے دوران مولانا عبدالعزیز کے بھائی غازی عبدالرشید سمیت ایک سو سے زائد افراد ہلاک ہوگئے تھے۔ صدر پرویز مشرف کے دور میں لال مسجد کی انتظامیہ کی طرف سے ملحقہ عمارت پر زبردستی قبضہ کر کے جامعہ حفصہ بنایا گیا تھا جسے آپریشن کے دوران مسمار کر دیا گیا تھا۔

لال مسجد کے سابق خطیب کی رہائی کے بعد بڑی تعداد میں لوگ اُن کے گھر کے باہر پہنچ گئے جہاں پر اُنہیں قید کیا گیا تھا۔ لوگوں نے اُن کے حق میں نعرے لگائے اور اُن کی رہائی پر میٹھائیاں تقسیم کیں۔

لال مسجد کے نائب خطیب عامر صدیق کا کہنا ہے کہ مولانا عبدالعزیز جمعہ کی نماز لال مسجد میں پڑھائیں گے۔ اسلام آباد کی انتظامیہ نے مولانا عبدالعزیز کو سیکورٹی فراہم کی ہے۔

اسلام آباد سے نامہ نگار ذیشان حیدر کے مطابق مولانا عبدالعزیز کی رہائی کے اعلان کے بعد لال مسجد کے طلباء اور طالبات کی ایک بڑی تعداد مسجد کے باہر جمع ہو گئی اور سب ایک دوسرے کو مبارکباد دیتے ہوئے گلے مل رہے تھے۔

بی بی سی سے بات کرتے ہوئے ایک خاتون کا کہنا تھا کہ اگر آج ان کے گھر بیٹا بھی پیدا ہو جاتا تو انہیں زیادہ خوشی مولانا کی رہائی کی ہوتی۔ان کا مزید کہنا تھا کہ جب انہوں نے مولانا عبدالعزیز کی رہائی کی خبر سنی تو ان کی خوشی کی انتہا نا رہی اور وہ اپنے گھر والوں کے ہمراہ لال مسجد آگئیں۔

عام طور پر عشاء کی نماز آٹھ بجکر تیس منٹ تک ادا کر دی جاتی ہے لیکن جمرات کو لال مسجد کی انتظامیہ کا کہنا تھا کہ جب تک مولانا عبدالعزیز نہیں آجاتے باجماعت نماز ادا نہیں کی جائے گی۔چنانچہ دس بجکر چالیس منٹ پر مولانا پہنچے اور ان کے پر جوش استقبال کے بعد باجماعت نماز ادا کی گئی۔

مولانا عبدالعزیز کے پہنچتے ہی سب کے سب مولانا کی گاڑی کے گرد جمع ہوگئے اور مولانا کے حق میں اور سابق صدر پرویز مشرف کے خلاف نعرے لگانے لگے۔

آخر میں مولانا عبدالعزیز نے تمام طلباء سے اپنے مختصر خطاب میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کو ان کی بحالی پر مبارک باد دیتے ہوئے اپنی رہائی پر ان کا شکریہ ادا کیا۔مولانا کا کہنا تھا کہ ان کی رہائی آزاد عدلیہ کی وجہ سے عمل میں آئی ہے۔انہوں نے نظام عدل ریگولیشن کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے کہا کہ بہت جلد یہ نظام پورے پاکستان میں نافذ ہو جائے گا۔

مولانا عبدالعزیز نے اپنے خطاب کے آخر میں اعلان کیا کہ جمعہ کے روز لال مسجد میں وہ خود نماز پڑھائیں گے۔

برطانیہ پاکستانی طلباء تک رسائی دے‘

’برطانیہ پاکستانی طلباء تک رسائی دے‘

دفتر خارجہ

تاحال برطانیہ نے گرفتار پاکستانی طلباء کے متعلق کسی قسم کی اطلاع نہیں دی: دفتر خارجہ

پاکستان حکومت نے بدھ کو برطانیہ سے کہا ہے کہ وہ گرفتار ہونے والے پاکستانی طلباء کے متعلق تفصیلی معلومات اور ان تک پاکستانی حکام کو رسائی فراہم کریں۔

دفتر خارجہ کے ترجمان عبدالباسط نے فون پر بی بی سی کو بتایا کہ ’آج برطانوی ہائی کمیشن کے ڈپٹی پولیٹکل قونصلر ایلسٹیئر کنگ سمتھ آئے تھے اور ہم نے ان سے کہا ہے کہ برطانیہ میں گرفتار کیے گئے طلباء کے بارے میں تفصیلی معلومات دیں اور ان تک رسائی بھی دی جائے۔‘

ایک سوال کے جواب میں ترجمان نے بتایا کہ وہ برطانیہ سے اس بارے میں جلد معلومات فراہم کرنے کے متعلق امید رکھتے ہیں۔ جب ان سے پوچھا کہ برطانوی نمائندے نے اس بارے میں کیا کہا تو انہوں نے کہا کہ ’یہ آپ ان سے پوچھیں‘۔

ایک اور سوال کے جواب میں ترجمان نے بتایا کہ تاحال برطانیہ نے گرفتار پاکستانی طلباء کے متعلق وزارت خارجہ کو کسی قسم کی اطلاع دی ہے اور نہ ہی ابتدائی معلومات فراہم کی ہیں۔

پولیٹکل قونصلر ایلسٹیئر کنگ سمتھ نے بی بی سی سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ان کو دفتر خارجہ طلب نہیں کیا گیا تھا بلکہ وہ پہلے سے طے شدہ ملاقات کے لیے دفتر خارجہ گئے تھے اور اس ملاقات کے دوران گرفتار ہونے والے پاکستانی طلباء کے متعلق بھی بات چیت ہوئی۔

واضح رہے کہ برطانوی انسداد دہشت گردی فورس نے گزشتہ ہفتے لیورپول، مانچسٹر اور لنکاشائر کے مختلف مقامات پر چھاپوں میں بائیس سے اکتالیس سال کی عمر کے گیارہ پاکستانیوں کو گرفتار کیا، جس میں بیشتر طالبعلم ہیں۔

برطانوی پولیس کو تاحال گرفتار ہونے والوں سے دہشت گردی کے کسی خاص منصوبے کے بارے میں کوئی معلومات ملی ہے اور نہ ہی کہیں سے دھماکہ خیز مواد مل پایا ہے۔ آئندہ جمعہ تک برطانوی عدالت نے مشکوک گرفتار طلباء سے پولیس کو پوچھ گچھ کی اجازت دے رکھی ہے۔

بھٹو کی جائداد، صنم کا پہلا تیر

بھٹو کی جائداد، صنم کا پہلا تیر

صنم بھٹو اور شازیہ مری

صنم بھٹو نے کہا ہے کہ وہ اب اپنی جائداد کی خود حفاظت کریں گی

صنم بھٹو کی نوڈیرو ہاؤس میں پریس کانفرنس سے ذرا دیر پہلے بعض صحافی یہ شرط لگا رہے تھے کہ صنم سیاست میں آمد کا اعلان کریں گی یا اپنے بہنوئی صدر مملکت آصف زرداری کا دفاع مگر انہوں نے دونوں میں سے کچھ نہیں کیا اور شکایتیں کیں تو صرف اپنی بھابی غنوی اور انکل ممتاز بھٹو کی۔

بینظیر بھٹو کی چھوٹی بہن اور ذوالفقارعلی بھٹو کی اکیلی زندہ اولاد صنم بھٹو نے نوڈیرو ہاؤس میں پہلی مرتبہ پریس کانفرنس کی ہے۔صوبائی وزیراطلاعات شازیہ مری اور مقامی پی پی پی رہنماء ان کے ہمراہ تھے۔

ان کی بمشکل آدھے گھنٹے کی پریس کانفرنس میں سب سے زیادہ خاندانی جائداد و زمین پر سے قبضہ ختم کرنے کی باتیں ہوئیں جو بقول صنم ان کی بھابھی غنویٰ بھٹو نے کیا ہے۔تمام پریس کانفرنس کے دوران صنم بھٹونے صرف ایک مرتبہ صحافیوں کے اسرار پر غنوی کا نام لیا مگر ان کے نام کے ساتھ بھٹو نہیں جوڑا۔

صنم بھٹو لندن سے براستہ دبئی اور اسلام آباد اپنے آبائی علاقے لاڑکانہ پہنچی تھیں۔انہوں نے مقامی پولیس اور انتظامی افسران کا اجلاس طلب کیا اور بعض عام لوگوں سے بھی ملاقاتیں کیں۔مگر ان کی زیادہ تر توجہ اپنی آبائی زمین و جائداد کی طرف تھی جو صنم کے بقول غنوی نے اپنے قبضے میں لے لی ہے اور وہ ان سے بات تک نہیں کر رہیں ہیں۔

صنم کو زرداریوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ صنم معصوم ہیں انہیں زرداریوں کی چالاکیوں کا کچھ پتا نہیں ہے۔حکومتی اہلکار ان سے میرے خلاف بیانات دلوا رہے ہیں

ممتاز بھٹو

صنم بھٹو کا کہنا تھا کہ جب تک ان کی بہن بینظیر بھٹو زندہ تھیں تب تک انہیں اپنی جائداد کی فکر نہیں تھی کیونکہ بینظیر بھٹو نگرانی کر کے انہیں رقم لندن پہنچاتی رہتی تھیں۔مگر ان کی ہلاکت کے بعد غنویٰ کے آدمیوں نے ان کے مینیجر اور رکھوالوں کو فارغ کردیا ہے اور بقول ان کے ’ان کی زمین و جائداد پر قبضہ کر لیا ہے۔‘

غنویٰ بھٹو صنم کے بھائی میر مرتضیٰ بھٹوکی بیوہ ہیں اور ان کے بچے فاطمہ اور ذوالفقار جونیئر ان کے ساتھ رہتے ہیں۔جبکہ حالیہ دنوں انہوں نے مرتضی بھٹو کے بھائی شاہنواز کی بیٹی سسی کو بھی لاڑکانہ بلایا اور انہیں عوام سے متعارف کروایا ہے۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے لاڑکانہ اور کراچی کے رہائشی بنگلے، المرتضی ہاؤس اور ستر کلفلٹن، غنویٰ بھٹو کے زیراستعمال ہیں۔جبکہ لاڑکانہ نوڈیرو میں قریباً چار ہزار ایکڑ پر مشتمل بھٹو سٹیٹ کا انتظام پہلے بینظیر بھٹو کی نگرانی میں تھا جو ان کی ہلاکت کے بعد صنم کے بقول غنویٰ نے سنبھال لیا ہے۔

صنم بھٹو کا کہنا تھا کہ پوری دنیا میں ان کے پاس باپ دادا کی دی ہوئی جائداد صرف لاڑکانہ میں موجود ہے جس کی نگرانی اب وہ خود کریں گی۔انہوں نے کہا کہ ان کا عملی سیاست میں آنے کا ارادہ نہیں ہے۔انہوں نے ایک عام شہری کی حیثیت سے پوری زندگی گزاری ہے اور اب بھی عام شہری بن کر رہنا چاہتی ہیں۔

صنم بھٹو لندن میں اپنے بیٹے شاہ میر اور بیٹی آزادی کے ہمراہ رہتی ہیں۔

ذوالفقارعلی بھٹو کے خاندان کے باقی ماندہ افراد کے درمیاں سیاسی اختلافات کے بعد اب ان کی جائداد کے ذاتی اختلافات بھی کشیدہ ہوگئے ہیں اور صنم کے بقول بدقسمتی سے ایسے اختلافات بھی انہیں عوام کے سامنے لانا پڑ رہے ہیں۔

صنم بھٹو

’ممتاز بھٹو نے بینظیر کی زندگی اجیرن کر رکھی تھی‘

بینظیر بھٹو اور مرتضیٰ بھٹو کے درمیاں اختلافات ان کے آخری دم تک جاری رہے اور اختلافات کا تسلسل ان کی اولاد نے بھی جاری رکھا ہوا ہے۔مرتضیٰ بھٹو کی بیوہ غنوی بھٹو اور ان کی بیٹی فاطمہ بھٹو کا کہنا ہے کہ بھٹو کے اصل وارث وہ ہیں اور پیپلزپارٹی بینظیر کے بعد اب زرداری پارٹی بن گئی ہے۔

دوسری طرف سابق وزیراعلی سندہ ممتاز بھٹو نے بھی زرداری مخالفت میں غنویٰ بھٹو سے اتحاد کیا ہوا ہے۔ممتاز بھٹو اور غنویٰ بھٹو نے چار اپریل کو ساتھ مل کر ذوالفقار علی بھٹو کی برسی منائی تھی۔دونوں رہنماؤں نے آصف زرداری کو بھٹوز کے علاقے میں نہ آنے مشورہ دیا تھا۔

صنم بھٹو اپنی پریس کانفرنس کے دوران ممتاز بھٹو کے متعلق سوالات پر برہم ہوگیئں اور انہوں نے ممتاز بھٹو سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

صنم بھٹو نے کہا کہ ممتاز بھٹو نے آخری تین مہینوں میں بینظیر بھٹو کی زندگی اجیرن کر دی تھی اور وہ انہیں گالیاں بکتے تھے۔صنم نے کہا کہ پوری زندگی ممتاز بھٹو نے ان کی بہن بینظیر کو ،ابیوز، کیا اور اب وہ ان کا نام یوز، کرنا چاہتے ہیں جس کی وہ ہرگز اجازت نہیں دیں گی۔

ممتاز علی بھٹو نے صنم بھٹو کے الزامات کے جواب میں کہا ہے کہ صنم کو زرداریوں نے یرغمال بنا رکھا ہے۔ایک مقامی ٹی وی چینل سے گفتگو میں ممتاز بھٹو نے کہا ہے کہ صنم معصوم ہیں انہیں زرداریوں کی چالاکیوں کا کچھ پتا نہیں ہے۔حکومتی اہلکار ان سے میرے خلاف بیانات دلوا رہے ہیں۔

پاکستانی سیاست کے کرشماتی کردار ذوالفقارعلی بھٹو کے خاندان کے باقی ماندہ افراد کے درمیاں خاندانی جائداد کی وراثت کا معاملہ سنگین صورت اختیار کر گیاہے۔جائداد کے اس تنازعے میں ذوالفقارعلی بھٹو کی بیٹیوں صنم بھٹو اور بینظیر بھٹو کی اولاد ایک طرف ہے جبکہ ان کے بٹیوں مرتضیٰ بھٹو اور شاہنواز بھٹو کی اولاد دوسری طرف۔


Friday, April 10, 2009

بلوچ رہنماؤں کی ہلاکت، پرتشدد احتجاج

بلوچ رہنماؤں کی ہلاکت، پرتشدد احتجاج

تین راہنماؤں کی لاشوں کی تصدیق ہو گئی ہے

بلوچ قوم پرست رہنماؤں غلام محمد بلوچ، شیر محمد بگٹی اور لالہ منیر کی ہلاکت کے بعد بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالات کشیدہ ہیں اور کوئٹہ سمیت صوبے کے مختلف حصوں میں احتجاجی مظاہرے کیے گئے ہیں جبکہ خضدار میں مظاہروں کے دوران نامعلوم افراد کی فائرنگ سے ایک پولیس اہلکار ہلاک ہوگیا ہے۔

وزیراعلی بلوچستان نواب اسلم رئیسانی نے ان ہلاکتوں کی عدالتی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے۔

مظاہروں کے دوران کوئٹہ میں سریاب روڈ پر اقوام متحدہ سمیت دیگر اداروں کی پانچ گاڑیوں اور ایک بس کو آگ لگائی گئی ہے۔ سریاب روڈ کے علاوہ بروری کے علاقے میں بینکوں اور سرکاری دفاتر کو نذرِ آتش کیا گیا ہے اور توڑ پھوڑ کی گئی ہے۔ مظاہروں کے بعد بلوچستان یونیورسٹی تین دن کے لیے بند کر دی گئی ہے۔ کوئٹہ کو کراچی سے ملانے والی اہم شاہراہ کو رکاوٹیں کھڑی کر کے بند کر دیا گیا ہے۔

ادھر بلوچستان نینشل پارٹی کی جانب سے بھی تین روز ہڑتال کا اعلان کیا گیا ہے، بی این پی کے سربراہ سردار اختر مینگل نے کراچی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچوں کو پوائنٹ آف نو ریٹرن کی طرف دھکیلا جا رہا ہے اب یہ ملک زیادہ دن نہیں چل سکتا۔ انہوں نے کہا کہ اس عمل میں بھی وہ ہی قوتیں شامل ہیں جنہوں نے ملک کو دو ٹکڑوں میں تقسیم کیا تھا۔

بلوچستان حکومت بے اختیار ہے اور تمام اختیارات آج بھی انہیں طاقتوں کے پاس ہیں جن کے پاس مشرف دور حکومت میں ہوا کرتے تھے

سردار اختر مینگل

اختر مینگل کے مطابق تین لاشیں بھیج کر انہیں چیلنج کیا گیا ہے کہ اپنےحقوق سے دستبردار ہوجائیں مگر ہم یہ چیلنج قبول کرتے ہیں۔’جتنے لوگ مارنے ہیں مارو ہم حق سے دستبردار نہیں ہوں گے۔‘

اسی طرح خضدار، تربت، گوادر اور دیگر علاقوں میں بھی بلوچ رہنماؤں کی ہلاکت کے خلاف احتجاجاً شٹر ڈاؤن ہڑتال ہے۔ خضدار میں گاڑیوں اور عمارتوں میں توڑ پھوڑ کی اطلاعات ہیں جبکہ خضدار کے ضلعی پولیس افسر غلام علی لاشاری نے بتایا ہے کہ نامعلوم افراد نے ایک پولیس اہلکار کو فائرنگ کر کے ہلاک کر دیا ہے۔

کراچی شہر کے مختلف علاقوں لیاری، پرانا گولی مار، پٹیل پاڑہ اور جہانگیر روڈ پر ٹائروں کو نذر آتش کرکے احتجاج کیا گیا ، بلوچ نیشنل فرنٹ کی جانب سے پریس کلب کے باہر احتجاجی مظاہرہ کیا گیا ۔بلوچ رائٹس کونسل کے رہنماء وہاب بلوچ نے دیگر لاپتہ افراد کی زندگیوں کے بارے میں تشویش کا اظہار کیا۔

غلام محمد بلوچ اقوام متحدہ کے اہلکار جان سولیکی کی رہائی کے لیے نواب خیر بخش مری سے مذاکرات میں شریک رہے تھے۔

بلوچ مزاحمت کاروں کی جانب سے اغوا کیئےگئے اقوام متحدہ کے ادارہ برائے پناہ گزین کے اہلکار جان سولیکی کی رہائی کے لیے نواب خیر بخش مری سے مذاکرات میں غلام محمد بلوچ بھی شریک رہے تھے۔

غلام محمد کے ساتھی بلوچ رائٹس کونسل کے رہنماء وہاب بلوچ کا کہنا ہے کہ جان سولیکی کی رہائی کے لیے اقوام متحدہ کے وفد سے مذاکرات کے بعد انہیں دھمکیاں ملتی رہیں تھیں اس قدر کہ انہیں کہا جاتا تھا کہ ہمیں معلوم ہے کہ آپ کے کتنے بچے ہیں۔

اب وقت آگیا ہے کہ تمام بلوچوں کو متحد ہو کر کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ اس واقعہ کے بعد بلوچ قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے کہ اب وہ اسلحہ نہ اٹھائیں تو کیا کریں

حاصل بزنجو

بلوچ رہنماؤں کی ہلاکت کے حوالے سے نیشنل پارٹی کے رہنما سینیٹرحاصل بزنجو نے کہا ہے کہ اس قتل کے ذمہ دار آئی ایس آئی اور ایم آئی کے سربراہ ہیں۔ کوئٹہ پریس کلب میں ایک اخباری کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر حاصل بزنجو نے کہا ہے کہ چھ روز پہلے خفیہ ایجنسیوں آئی ایس آئی اور ایم آئی کے اہلکار ان تین رہنماؤں کو کچکول علی ایڈووکیٹ کے دفتر سے اٹھا کر لےگئے تھے اور اسی دن ہی انہیں گولیاں مار کر ہلاک کر دیا تھا۔

انہوں نے کہا کہ قتل کے واقعہ کی ایف آئی آر آئی ایس آئی کے چیف جنرل شجاع پاشا اور ایم آئی کے سربراہ میجر جنرل آصف کے خلاف درج کرنی چاہیے۔ حاصل بزنجو نے کہا کہ ’اب وقت آگیا ہے کہ تمام بلوچوں کو متحد ہو کر کارروائی کرنی چاہیے کیونکہ اس واقعہ کے بعد بلوچ قوم کے لیے ایک سوالیہ نشان کھڑا ہوگیا ہے کہ اب وہ اسلحہ نہ اٹھائیں تو کیا کریں‘۔

اس دوران براہمدغ بگٹی کے ترجمان شیر محمد بگٹی نے نامعلوم مقام سے براہمدغ بگٹی کا بیان جاری کیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ تینوں رہنماؤں کا قتل آزادی کے حصول کی طرف ایک قدم ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ان تینوں رہنماؤں کے قتل سے یہ ثابت ہو گیا ہے کہ خفیہ ایجنسیاں بلوچوں کے ساتھ کیا رویہ اختیار کیے ہوئے ہیں۔ یاد رہے کہ بلوچ نیشنل موومنٹ کے سربراہ غلام محمد بلوچ، لالہ منیر اور بلوچ ریپبلکن پارٹی کے رہنما شیر محمد بگٹی کی لاشیں گزشتہ رات تربت کے قریب مسخ شدہ حالت میں ملی تھیں۔ تربت کے پولیس افسر ایاز بلوچ کا کہنا ہے کہ اب تک یہ واضح نہیں ہے کہ ان رہنماؤں کو کس نے قتل کیا ہے تاہم یہ لاشیں قریباً چھ روز پرانی ہیں۔

Saturday, March 28, 2009

زرداری، مکاری اور وفاداری


زرداری اور بینظیر بھٹو

آصف علی زرداری کی واحد ڈھال کسی اصول، کسی نظریے سے وفاداری ہے

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نو مارچ سن دو ہزارسات میں چیف جسٹس کی معذولی اور ان کے ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والے ججوں کی بحالی کے لیے دو سال سے جاری وکلاء تحریک کی بلآخر کامیابی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان کا تجزیہ۔ تجزیہ تین اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس کی دوسری قسط ملاحظہ ہو:

آصف علی زرداری جب سے پاکستان کے صدر بنے ہیں انہوں نے اپنے ہر انٹرویو اور تقریباً ہر بیان میں کہا ہے کہ ان کا ہر فیصلہ اور ہر قدم بینظیر بھٹو کی وضع کردہ سیاست کے اصولوں کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔

پہلی قسط: سنگھ از کنگ

وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں جب بھی مشکل فیصلوں کا سامنا ہوتا ہے وہ خود سے یہی سوال کرتے ہیں کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ایسی صورتحال میں کیا کرتی۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ان کی مقتول رہنما کی سیاست کو ان سے کہیں زیادہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف زندہ رکھے ہوئے ہیں؟

یہ پاکستانی سیاست کا کمال ہے کہ ملک کے دو بڑے سیاستدانوں نے جلا وطنی میں اپنی سیاست کی مکمل تشکیل نو کی۔ میاں نواز شریف کے نئے سیاسی اوتار کی داستان آپ اس تجزیاتی سلسلے کے پہلے حصے میں پڑھ چکے ہیں۔ اب ایک نظر بینظیر بھٹو کے سیاسی فلسفے پر۔

میاں نواز شریف کی طرح وہ بھی پہلے دن سے ہی پاکستانی سیاست کو اپنا خداداد حق بلکہ جاگیر سمجھتی تھیں۔ ان کے لیے نہ تو پارٹی کے لیے نو سال تک جنرل ضیا نامی عذاب بھگتنے والے پارٹی کارکنوں کی کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی انہیں جمہوری اصولوں کے تحت ضیائی نظام کی باقیات ختم کرنے میں کوئی دلچسپی۔ حصول اقتدار ان کی سیاست کا واحد محور تھا بالکل جیسے کوئی بپھرا ہوا جاگیردار اپنی چھنی ہوئی جاگیر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔

شاید اسی لیے انیس سو چھیاسی میں وطن لوٹنے کے بعد وہ کسی اور سیاستدان کو خاطر میں نہ لائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستان کے سیاسی نظام پر جنرل ضیاء کی چھاپ کی گہرائی کا اندازہ تو ضرور ہو گیا لیکن کیونکہ اقتدار کی سیاست کی پیچیدگیاں ان کی سمجھ سے بالاتر تھیں اس لیے ان کا رد عمل ایک سیاستدان سے زیادہ ایک کھلاڑی کا رہا۔ اس وقت ان کا حریف میاں نواز شریف نہ سیاستدان تھا اور نہ کھلاڑی۔ اس وقت کا نواز شریف محض قسمت کی وہ بگڑی ہوئی اولاد تھی جس کی سیاست اوپر قدرت اور نیچے فوج کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی نے سنبھالی ہوئی تھی۔

صدر آصف علی زرداری کو یاد رکھنا ہو گا کہ بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی تو شاید ایک ہی ہو لیکن اسے چلانے والے ہاتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان ہاتھوں کی پہنچ وہاں تک ہو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں

۔

ظاہر ہے بینظیر بھٹو نے قدم قدم پر مات کھائی۔ معاملہ خواہ صوبے میں وفاق سے تعینات کیے گئے افسروں کا اٹھا یا بھارت میں جاری سکھ بغاوت کی پاکستانی حمایت کا، بینظیر بھٹو اپنی مرضی نہ کر پائیں۔ بھنا کر حمید گل جیسے جہادی جرنیل کو آئی ایس آئی سے نکال پھینکا لیکن اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی اپنی حکومت کھو بیٹھیں۔

اپنی پہلی برطرفی سے بطور ایک سیاستدان تو بینظیر زیادہ نہ سیکھ سکیں لیکن بطور ایک کھلاڑی وہ چند اہم نتیجوں پر پہنچیں۔ لہٰذا جب انیس سو ترانوے میں میاں نواز شریف اپنے ہی بچپنے کی نظر ہوئے تو بینظیر بھٹو نے نسبتاً واضح اہداف کے ساتھ دوبارہ اقتدار سنبھالا۔

اس بار پنجاب میں براہ راست حکومت کرنے کی بجائے انہوں نے منحرف نواز لیگی میاں منظور وٹو کا سہارا لیا، بھارت کے ساتھ تعلقات پر سخت جارحانہ رویہ اپنایا اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کے لیے شمالی کوریا سے پاکستان کے میزائیل پروگرام کے لیے مدد لی۔ سیاسی کھیلوں کے پے در پے پینتروں میں ان کو نہ تو اپنی سیاست یاد رہی اور نہ ہی ایک فعال حکومت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھائی قتل ہوا، ایک بار پھر حکومت چھنی، شوہر پھر جیل جا بیٹھا اور خود جلا وطن ہوئیں۔

دوسری برطرفی کے بعد بینظیر بھٹو کو آئی ایس آئی سے نفرت ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے انٹرویوز میں بھی کہنے لگیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی انتظامیہ بے لگام ہو چکی ہے۔ اب وہ آئی ایس آئی کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بھارت دشمنی سے لے کر میاں نواز شریف کی سیاسی کامیابیوں سمیت پاکستان میں ہونے والی تمام سیاسی برائیوں کی جڑ سمجھتی تھیں۔ اور اسی بنیاد پر وہ جلا وطنی میں اپنی سیاست کی تشکیل نو کرنے لگیں۔

سوئس عدالتوں می اپنے خلاف قائم مقدمات سے نمٹنے کے لیے انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے رابطے کھلے رکھے، امریکی انتظامیہ میں اپنے خلاف پائے جانے والے خدشات کو بتدریج زائل کیا، امریکی انتظامیہ میں آئی ایس آئی کے خلاف بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور اپنے شوہر کو جیل سے رہا کروا لیا۔

لیکن ان تمام اقدامات سے کہیں زیادہ اہم ان کا یہ فیصلہ ثابت ہوا کہ وہ ہر حالت میں پارٹی سیاست میں متحرک رہیں گی۔ آٹھ سال کی لمبی جلا وطنی میں بھی ان کے کسی کارکن یا رہنما کو ان تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کی شکایت نہ ہوئی۔ دو ہزار سات کے وسط تک بینظیر بھٹو اپنے شوہر کو جیل سے چھڑا چکی تھیں، جنرل مشرف کی سیاست اپنے آخری دموں پر تھی، میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو فوج کو سیاست میں نہ آنے دینے کا عہد کر چکے تھے اور پوری دنیا ان کو پاکستان کی سیاست میں پھر سے فعال دیکھنے پر مجبور ہو چکی تھی۔

کیا کبھی پاکستان کو آصف زرداری میں دو ہزار سات والی بینظیر کی جھلک بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، اس وقت پاکستان کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آصف علی زرداری کی تاحال سیاست صرف اور صرف مکاری پر مبنی رہی ہے۔ اس میں ابھی تک نہ تو پارٹی، نہ سیاسی حلیفوں، نہ ملک اور نہ ہی بینظیر سے وفاداری کا کوئی عنصر سامنے آیا ہے

۔

اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو جب بینظیر بھٹو واپس لوٹیں تو عوام جنرل مشرف کی قاف لیگ، ملک کے حقیقی سیاستدانوں کے خلاف ان کی محاذ آرائی اور ملک بھر میں جا بجا ہونے والے خود کش حملوں سے عاجز آ چکے تھے۔ اسی لیے جب انہوں نے قومی مفاہمت کا نظریہ پیش کیا تو سوائے چند دل جلے مبصروں کے کسی نے ان کی مخالفت نہ کی اور نہ ہی ان کی مفاہمتی پالیسی کو موقع پرستی کہا۔

دوسری جانب بینظیر بھٹو بھی آٹھ سال پہلے ملک چھوڑنے والی مغرور و متکبر سیاستدان نہیں بلکہ لیاری میں اپنے مقتول محافظوں کے گھروں میں ان کی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر رونے والی شفیق رہنما بن چکی تھیں۔ جس رانی کا خطاب سندھی ان کو کب سے دے چکے تھے اب وہ اپنی ہر ادا میں وہی رانی نظر آتی تھیں۔ ایک سیاسی مسیحا جسے پاکستان کے گلتے سڑتے ناسوروں کے لیے مرہم کا کام کرنا تھا۔

اپنے قتل سے چند دن پہلے ایک صحافی نے بینظیر بھٹو سے پوچھا کہ وہ اپنی سکیورٹی کے بارے میں اتنی لاپرواہ کیوں ہیں۔ اب سب کچھ پھر پہلے جیسا ہو چکا ہے نا، انہوں نے جواباً کہا۔ بینظیر کا یہ اوتار اس قدر بھرپور تھا کہ غیر رسمی محفلوں میں بڑے بڑے فوجی جرنیل بھی ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اب صرف وہ ہی ملک کو سنبھال سکتی ہیں۔

شاید اسی لیے ان کے قتل پر صرف لوگ ہی نہیں روئے، لوگوں کے دل روئے۔ کسی نے کہا آج میری بہن گئی، کوئی بولا آج میری ماں مری۔ پورا ملک ایک برباد عاشق کی طرح سوگوار ہوا جیسے ہر کسی کو یقین ہو کہ اس بار بینظیر بھٹو اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ عوام کی خاطر ملک لوٹی تھیں - شاید یہ جانتے ہوئے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

بینظیر بھٹو کے قتل سے یوں لگا جیسے پاکستان یکایک برسوں پیچھے چلا گیا ہو۔ سیاسی افق پر پھر ماضی کی تاریکیوں نے غلبہ کیا اور جب اٹھارہ فروری کے انتخابات سے یہ تاریکی چھٹی تو قوم کو اس میں سے آصف علی زرداری کا ہشاش بشاش چہرہ جھانکتا ملا۔

یہ آصف علی زرداری کون تھا؟ کیا یہ انیس سو چھیاسی والی بینظیر بھٹو کا ایک روپ تھا جسے پارٹی وراثت میں ملی تھی اور جو اقتدار کو اپنا خداداد حق سمجھتی تھی؟ یا یہ انیس سو ترانوے والی بینظیر کا اوتار تھا جو اقتدار کی خواہش کے لیے ابلیس ابن ابلیس سے بھی اتحاد کر سکتی تھی؟ یا پھر یہ دو ہزار سات والی بینظیر کا نیا جنم تھا جو محاذ آرائی کے زخموں سے چور پاکستان پر مفاہمت کا مرہم رکھنے لوٹی تھی؟

جس وقت آصف علی زرداری نے صدر بننے کا ارادہ کیا اس وقت پاکستان میں ایک عام رائے یہ تھی کہ انہیں براہ راست اقتدار سے باہر رہتے ہوئے صرف پارٹی امور پر توجہ دینا چاہیے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھاتے ہوئے پارٹی کے دل میں جگہ بنانی چاہیے۔ لیکن ان کے صدر بننے کے فیصلے میں انیس سو چھیاسی والی بینظیر کا روپ نظر آیا۔

پھر جب آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تحریری معاہدوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاہدے قران یا حدیث نہیں ہوتے تو قوم نے ان میں انیس سو ترانوے والی بینظیر کی جھلک دیکھی جو حصول اقتدار کی خاطر شیطان سے بھی ڈیل کرنے کو تیار تھیں۔

کیا کبھی پاکستان کو آصف زرداری میں دو ہزار سات والی بینظیر کی جھلک بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، اس وقت پاکستان کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آصف علی زرداری کی تاحال سیاست صرف اور صرف مکاری پر مبنی رہی ہے۔ اس میں ابھی تک نہ تو پارٹی، نہ سیاسی حلیفوں، نہ ملک اور نہ ہی بینظیر سے وفاداری کا کوئی عنصر سامنے آیا ہے۔

اور صدر زرداری کے مسائل بینظیر بھٹو کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ بینظیر بھٹو کو سیاسی مکاری کے مختلف مراحل سے گزر کر ملک و قوم سے وفاداری کی منزل تک پہنچنے میں بیس سال کا عرصہ لگا۔ آصف علی زرداری کے پاس اتنا وقت کہاں۔ ان کو جو بھی کرنا ہے آج ہی کرنا ہے۔ صدر بننے سے لے کر اب تک قوم نے صرف ان کی سیاسی مکاری دیکھی ہے۔ اب انہیں اپنی پارٹی پر، اپنے سیاسی حلیفوں پر، اپنے بیرون ملک حمایتیوں پر اور سب سے بڑھ کر اپنی قوم پر ثابت کرنا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ ان کی غلطی اور سیاسی ناسمجھی کا نتیجہ تھا۔

اور ایسا کرنے کے لیے اگر ان کا خیال ہے کہ بینظیر بھٹو کی طرح ان کے پاس بھی بیس سال ہیں تو یہ بڑی خام خیالی ہو گی۔ بینظیر بھٹو کے قتل نے پاکستان میں سیاسی قتل و غارت کی ایک نئی روایت شروع کی ہے جو اس سے پہلے صرف چھوٹی چھوٹی فرقہ وارانہ یا لسانی جماعتوں میں پائی جاتی تھی۔ اور ضروری نہیں کہ اس نئی روایت کے پاسبان مذہبی جنونی ہوں۔ یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

صدر آصف علی زرداری کو یاد رکھنا ہو گا کہ بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی تو شاید ایک ہی ہو لیکن اسے چلانے والے ہاتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان ہاتھوں کی پہنچ وہاں تک ہو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔

اور ان ہاتھوں کے سامنے آصف علی زرداری کی واحد ڈھال کسی اصول، کسی نظریے سے وفاداری ہے نہ کہ وہ سیاسی مکاری جو انہیں بدتریج ایک گہری کھائی کے کنارے دھکیل لائی ہے۔ اب انہیں فوراً اپنی راہ بدلنا ہو گی کیونکہ جس راستے پر وہ اب تک چلتے آئے ہیں اس پر آگے صرف اندھیرا ہے۔

Thursday, March 19, 2009

اقوالِ بخشو !



میرا یارِ مجذوب احمد بخش جسے ہم سکول کے زمانے سے بخشو بخشو کہتے ہیں۔ اس کی عجیب عادت ہے۔ بال بچوں سے بے نیاز ہے۔ اچانک غائب ہوجاتا ہے اور پھر بغیر بتائے جن کی طرح آدھمکتا ہے۔ جس جس پرانے دوست کو اطلاع ملتی ہے وہ اقوالِ بخشو چننے کے لیے لپکتا ہے۔گھنٹوں گپ رہتی ہے اور بخشو حسبِ معمول اگلے ہفتے پھر ملیں گے کا نعرہ لگا کر مہینوں کے لیے گمشدہ ہوجاتا ہے۔

کل بھی یہی ہوا اور بخشو اپنے نادر نظریات و خیالات سے ہمیں مالا مال کر کے نکل لیا۔ کچھ اقوالِ بخشو آپ کی نذر کرتا ہوں۔

٭ نواز شریف اس وقت واحد قومی سیاستدان ہے جو وزن میں شعر پڑھتا ہے۔

٭ سلمان تاثیر وہ اڑتا تیر ہے جس کا رخ ایوانِ صدر کی طرف ہے۔

٭ رحمان ملک مٹھائی پر بیٹھی مکھی ہے۔

٭ آصف زرداری غیر خاندان سے بیاہ کر لائی گئی وہ بہو ہے جسے پیپلز پارٹی کے خاندانی بوڑھے بوڑھیاں کبھی قبول نہیں کریں گے۔

٭ پیپلز پارٹی کے ڈی این اے میں ڈیتھ وش پروگرامڈ ہے۔

٭ فضل الرحمان پچھلے جنم میں خالہ سرداراں تھے۔ جن کے بارے میں محلے کے بزرگ بتاتے ہیں کہ جنت مکانی اگر کمرے میں اکیلی بھی بیٹھی ہوں تو دیواروں کو لڑوا دیتی تھیں۔

٭ اسفند یار ولی کا اپنے دادا باچا خان کی تعلیمات سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا طالبان کا جمہوریت سے۔

٭ پرویز مشرف کی باتیں چرس کے سوٹے کی طرح ہیں۔ کش لگاتے رہو تو مزا آتا رہتا ہے۔ سگریٹ ختم ہوتے ہی سر بھاری ہوجاتا ہے۔

٭ محمود اچکزئی بلوچستان کی آزادی کی شاہراہ پر رکھا ہوا کنٹینر ہیں۔

٭ اوباما بش کا بوتل بدل بھائی ہے۔

٭ اسرائیل مڈل ایسٹ میں امریکی ٹول پلازہ ہے۔

٭ امریکہ نے چین کو انقلابی مومن سے کاروباری میمن میں تبدیل کر دیا ہے۔

٭ بھارت اس تماشائی کی طرح ہوا میں اڑنے کی کوشش کر رہا ہے جو ابھی ابھی سپر مین دیکھ کر سینما ہال سے باہر نکلا ہو۔۔۔

٭سلم ڈاگ ملینئر کا ہدایت کار اگر دیسی ہوتا تو یہ فلم کارا فلم فیسٹیول سے آگے نا جاسکتی۔

بخشو نے اور بھی نوادرات اگلے ہیں۔ لیکن ان کا تذکرہ پھر سہی۔۔۔۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس



افتخار محمد چوہدری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں

حکومت کی طرف سےمعزول ججوں کی بحالی کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس ہوگئی ہے جبکہ فائنینس بِل میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اُس وقت کی اُن کی اتحادی اور موجوہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے مل کر سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد انتیس کی تھی۔ آئین میں ابھی تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ مقرر ہے۔

افتخار محمد چودھری اور سپریم کورٹ کے دیگر چار ججوں کی بحالی کے بعد اُن تمام ججوں کی اُمیدیں دم توڑ گئیں جو شاید سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئیر جج بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ایمرجنسی لگانے کے بعد سپریم کورٹ کے جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا اُن میں موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بُٹر اور جسٹس سعید اشہد شامل تھے۔

ان میں سے دو جج، نواز عباسی اور سعید اشہد، پہلے ہی ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اس ماہ کی اکیس تاریخ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

معزول ججوں میں سے کچھ نے موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دوبارہ حلف لے لیا تھا۔ ان میں جسٹس سردار رضا خان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، میاں شاکراللہ جان اور جسٹس ناصر الملک شامل تھے جبکہ سید جمشید علی جنہوں نے گزشتہ برس دوبارہ حلف اُٹھایا تھا، حلف اُٹھانے کے ایک ماہ بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔ سید جمشید علی کا کہنا تھا کہ وہ معزول جج کہلانا پسند نہیں کرتے۔

پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے جسٹس نواز عباسی کے ریٹائر ہونے کے بعد جسٹس فقیر محمد کھوکھر موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد سب سے سینئیر جج تھے لیکن دوبارہ حلف اُٹھانے اور موجودہ حکومت کی طرف سے معزول ججوں کی بحالی کے بعد وہ سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر چلے گئے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چوہدری اعجاز شامل ہیں


موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد جسٹس سردار رضا خان سپریم کورٹ کے سب سے سنیئیر جج تھے اور عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا نام چیف جسٹس کے طور پر لیا جا رہا تھا تاہم معزول ججوں کے بحال ہونے کے بعد وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔افتخار محمد چودھری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں اور دونوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کے بعد پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا تاہم یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد معزول ججوں کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد جاوید اقبال اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چودھری اعجاز شامل ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال اکتیس جولائی سنہ دوہزار تیرہ ، جسٹس سردار رضا خان نو فروری سنہ دو ہزار دس، فقیر محمد کھوکھر پندرہ اپریل دو ہزار دس ، خلیل الرحمن رمدے بارہ جنوری دو ہزار دس اور میاں شاکراللہ جان سات اگست دو ہزار بارہ کو ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گیارہ دسمبر سنہ دو ہزار تیرہ کو ریٹائر ہوں گے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ناصر الملک کے امکانات ہیں کہ وہ افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔

عدالتِ اعظیٰ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں تعمیراتی کام جاری ہے اور ججوں کے مزید چیمبرز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی اکیس مارچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں سنیارٹی جس حساب سے ہوگی اس کے مطابق افتخار محمد چودھری چیف جسٹس، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا خان، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس میاں شاکراللہ جان، جسٹس ایم جاوید بُٹر، جسٹس تصدق حسیین جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس چودھری اعجاز احمد، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس محمد قائم جان، جسٹس موسی کے لغاری، جسٹس چودھری اعجاز یوسف، جسٹس محمد اختر شبیر، جسٹس ضیاء پرویز، جسٹس میاں حامد فاروق، جسٹس سید سخی حسین بخاری، جسٹس سید زوار حسین جعفری، جسٹس شیخ حاکم علی، جسٹس محمد فرخ محمود، جسٹس صبیح الدین احمد، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس سردار محمد اسلم کے نام آتے ہیں۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ افتخار محمد چودھری قومی مصالحتی آرڈینینس اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کے مردے اُکھاڑنے کی بجائے مستقبل کو دیکھنا چاہیے۔

Wednesday, March 18, 2009

ایک سو افتخار چوہدری چاہییں!

وسعت اللہ خان




عدلیہ کی بحالی کے بعد اب عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی جدوجہد ضوروی ہے

ٹراسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے پچپن فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ یہاں کا عدالتی نظام کرپٹ ہونے کے سبب انصاف کی وسیع تر فراہمی میں ناکام ہے۔کسی بھی درجے کی عدالت کے روبرو جانے والے سائلوں میں سے چھیانوے فیصد کو پولیس یا عدالتی اہلکاروں یا وکلا کے ہاتھوں کم از کم ایک مرتبہ کرپشن کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مذکورہ جائزے میں ایک عام پاکستانی کے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔عدالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیاں نہ صرف فرسودہ بلکہ انتہائی کمزور ہوچکی ہیں۔

اس زنجیر میں پہلی بنیادی کڑی پولیس ہے۔اگرچہ موجودہ پولیس اٹھارہ سو اکسٹھ کے انڈین پولیس ایکٹ کے بجائے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر کے تحت کام کر رہی ہے۔لیکن اسکی کارکردگی کی نگرانی کے لیے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر میں جو غیر جانبدارانہ ڈھانچہ تجویز کیا گیا تھا وہ نفاذ سے پہلے ہی اتنا کمزور کردیا گیا کہ پولیس حسبِ معمول پہلے کی طرح بے خوف ہوگئی۔ ہائی وے پولیس اور پولیس ایلیٹ فورس کی تنخواہوں میں تو کسی حد تک اضافہ ہوا لیکن بیشتر پولیس کے اوقاتِ کار اور تنخواہوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔حتی کہ ایک عام پولیس والے کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولتیں تک فراہم نہیں کی گئیں۔ پولیس ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ کوئی بھی شہری بذریعہ انٹرنیٹ رورٹ درج کروا سکتا ہے۔ لیکن آج بھی ننانوے فیصد تھانے کاغذ ، قلم اور کچی و پکی رپورٹ کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں ضرور اضافہ کیا گیا لیکن عمارتیں نہیں بنائی گئیں۔ چنانچہ بیشتر نئے تھانے قبضے کی جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔
پولیس

دالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیوں میں پولیس پہلی کڑی ہے

پولیس کی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے پیشہ ورانہ غیرجانبدار طریقِ کار اپنانے کے بجائے پولیس والوں کی ترقی و تنزلی پہلے کی طرح حکومتی عمل داروں ، سیاستدانوں اور بااثر عمائدین کی آبرو سے بندھی ہوئی ہیں۔ ایک تہائی پولیس وی آئی پی پروٹیکشن کے لیے استعمال ہوتی ہے۔کہیں یہ پروٹیکشن ضروری ہوتی ہے لیکن اکثر حکومتی عملدار اس سہولت کو اپنا سٹیٹس سِمبل ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان حالات میں پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بڑھانے اور مناسب تربیت کی بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اس ماحول میں جو بھی پولیس فورس کام کرے گی اسکی وفاداری اپنے کام ، اختیارات کے درست استعمال اور ریاستی و عوامی مفاد کے بجائے طاقتور کے مفاد سے ہی جڑ سکتی ہے۔

اس کا نتیجہ ماورائے عدالت پولیس مقابلوں، دورانِ حراست قیدیوں کی ہلاکتوں ، نجی خفیہ جیل خانوں، سائل پر دباؤ، ایف آئی آر میں اصل حقائق چھپان، کمزور یا تبدیل کرن، اصل گواہوں کی حوصلہ شکنی اور جعلی گواہوں کی حوصلہ افزائی کے رحجہان اور کیس کی سنگینی کے حساب سے رشوت کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔

انصاف کی زنجیر کی دوسری کڑی تفتیشی عمل ہے۔اگرچہ کاغذی طور پر پولیس کی انویسٹی گیشن برانچ کرائم برانچ سے الگ ہے لیکن تفتیش کار جدید تحقیقی مہارت اور مطلوبہ وسائیل سے پہلے کی طرح نابلد و محروم ہیں۔ آج بھی مکہ ، لات ، چتھرول ، الٹا لٹکانا اور تیز روشنی میں ملزموں کو کھڑا رکھنا تفتیشی افسران کے محبوب طریقے ہیں۔ پولیس جائے وقوعہ سے اہم مادی شواہد اکھٹا کرنے ، جرم کی نوعیت اور ملزم کی نفسیات کی چھان بین سے زیادہ ملزم کے سماجی مقام اور بیانات سے دلچسپی رکھتی ہے۔گواہوں کو پیش کرنے کا بار بھی ملزم کو اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان کی سولہ کروڑ آبادی کے لیے کراچی اور لاہور میں دو فرسودہ فورینزک لیبارٹریز ہیں۔جبکہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے واحد لیبارٹری اسلام آباد میں تین برس پہلے چین کی مدد سے قائم کی گئی ہے۔ ان حالات میں کتنی اچھی تفتیش ہوسکتی ہے اسکا اندازہ لگانے کے لیے نوبل انعام یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

اور پھر یہ سب کچھ چالان اور قانونی دستاویزات کی صورت میں انصاف کی تیسری کڑی یعنی عدالت کے روبرو پیش ہوتا ہے۔سائیل کے لیے سب سے پہلا اور اہم کام کسی ایسے وکیل کی تلاش ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے کام میں ماہر ہو بلکہ خدا ترس بھی ہو۔نوے فیصد وکلا سائیل کو مجبور نہیں بلکہ نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھتے ہیں۔وہ سائیل کو اس کے مقدمے کی نوعیت اور کمزوریوں یا خامیوں کے بارے میں پیشہ ورانہ مشورہ دینے یا رہنمائی کرنے کے بجائے جھوٹے دلاسے دیتے ہیں۔انکی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو بلکہ جتنا التوا میں جاسکے معاشی طور پر اتنا ہی اچھا ہے۔

وکیل اور جج کے درمیان ایک اور کردار پیش کار کا ہوتا ہے جس کا کام سماعت کی تاریخ آگے پیچھے کروانا ہوتا ہے۔ وہ فائیلوں کے انبار کو اوپر نیچے کرنے پر قادر ہوتا ہے۔اس کا دارومدار اس پر ہے کہ انصاف کا متلاشی سائیل اسے کتنا خوش رکھ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر سائیل صرف شنوائی کی تاریخ لینے کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ اور جیل میں بند قیدی پورا پورا دن عدالت کے احاطے میں صرف یہ سننے کے لیے زنجیر سے بندھے بیٹھے رہتے ہیں کہ اب انکی شنوائی اگلے مہینے کی فلاں تاریخ پر ہوگی۔
وکیل

بیشتر وکلیلوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو

پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سے نابلد ہے۔لیکن عدالتی زبان انگریزی ہے۔چنانچہ سائیل کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس کاغذ پر کیا لکھا ہے اور وہ اس پر کیوں انگوٹھا لگا رہا ہے۔اگر سائیل ان کاغذوں کو جاننے کے لیے حجت کرے تو وکیل اسے یہی کہتا ہے کہ ’اللہ خیر کرے گا،تم فکر کیوں کرتے ہو۔میں ہوں نا۔‘

جہاں تک ججوں کا معاملہ ہے تو انکی تنخواہیں اور مراعات انہی کے ہم منصب بیورو کریٹس اور فوجی افسران کے مقابلے میں نہائت قلیل ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں مادی مشکلات کے باوجود ایمانداری سے نبھائیں۔لیکن وہ بھی انسان ہیں۔اور سیاسی دباؤ ، سفارش اور مالی ترغیب تو اچھے اچھوں کو ڈگمگانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔بعض جج دھڑلے سے انصاف فروخت کرتے ہیں تو بعض کسی توسط سے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ان کی تقرری و تنزلی کا دارومدار بھی انکے سیاسی رجہان ، تعلقات اور سماجی اثرو رسوخ پر ہوتا ہے۔چنانچہ ایسے ججوں کے پاس بارسوخ افراد کے مقدمات کا انتہائی رش ہوتا ہے۔یوں ایک عام اور بے یارو مددگار سائیل کی فائیل ہر پیشی کے ساتھ مزید دبتی چلی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس وقت تقریباً نو لاکھ مقدمات التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اس وقت عدلیہ کو جتنی افرادی قوت میسر ہے اور فیصلے کرنے کی جو رفتار ہے اسے دیکھتے ہوئے سال میں دو ماہ چھٹی کرنے والی عدلیہ کو یہ مقدمات نمٹانے کے لیے کم از کم پچاس برس درکار ہوں گے۔ مرے پر سو درے یہ کہ پورے ملک میں ایک نہیں بلکہ شریعت اور انگریزی قانون پر مشتمل دو عدالتی نظام جاری و ساری ہیں۔اور عدالتیں بھی ایک قسم کی نہیں بلکہ بھانت بھانت کی ہیں۔

کہنے کو کرپٹ ججوں کے کان کھینچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل قائم ہے۔جسے کوئی بھی شخص شکیت بھیج سکتا ہے۔لیکن سپریم جوڈیشل کونسل یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ جھوٹی اطلاع یا شہادت دینے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کرسکے۔اگرچہ یہ شق بالکل جائز اور مناسب ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے والا اپنے پاؤں کے نشانات چھوڑ دے۔چنانچہ عام شہری کسی بھی جج کے بارے میں درست معلومات ہونے کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایت کی ہمت نہیں کرتا۔اور یوں ایماندار ججوں کے شانہ بشانہ کرپٹ جج بھی زندگی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جرگہ سسٹم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ بظاہر جرگہ سسٹم غیر قانونی ہے۔لیکن عدلیہ کی آزادی اور سستے انصاف کی فراہمی کے علمبردار کئی ارکانِ پارلیمان اور سرکاری افسر ان جرگوں میں دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ اور چوری سے لے کر زندگی و موت تک کے فیصلے کرتے ہیں۔ عام آدمی جسے رسمی عدالتی نظام سے رجوع کرتے ہوئے ہول اٹھتا ہے۔بخوشی یا مجبوری میں ان جرگوں کے فیصلے تسلیم کرنے کو غنیمت سمجھتا ہے۔

اگرچہ افتخار محمد چوہدری اور انکے جرات مند ساتھیوں کی بحالی ایک خوش آئند قدم ہے۔لیکن تین کڑیوں پر مشتمل عدالتی ڈھانچے کو درست کرنے کے لیے ایک نہیں کم ازکم ایک سو افتخار چوہدری درکار ہیں۔

Tuesday, March 17, 2009

سنگھ از کنگ

میاں نواز شریف

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نو مارچ سن دو ہزارسات میں چیف جسٹس کی معذولی اور ان کے ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والے ججوں کی بحالی کے لیے دو سال سے جاری وکلاء تحریک کی بلآخر کامیابی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر عامر احمد خان کا تجزیہ۔ یہ تجزیہ تین اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط ملاحظہ ہو:

ستمبر دو ہزار سات میں میاں نواز شریف لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے حکمرانِ وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف علم بغاوت تھامے جب پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوئے تو شاید ہی کوئی یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

ان کے سر پر دسمبر دو ہزار میں جنرل پرویز مشرف سے کی گئی سیاسی ڈیل کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ان کی پارٹی آٹھ سال کی سیاسی لاوارثی سے نڈھال تھی اور ان کی سیاست کے منہ پر ایک فوجی حکمران کے ظلم سے گھبرا کر ملک چھوڑ دینے کی کالک ملی تھی۔

مشرف حکومت نے ان کے جہاز کے اسلام آباد اترنے کے چند گھنٹے بعد ہی با آسانی انہیں ایک دفعہ پھر ملک بدر کر دیا اور پورے ملک میں ان کی دوسری جلا وطنی کی مخالفت میں چند لوگ بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔ ایسے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ نہ صرف وہ بطور ایک فعال سیاستدان اپنا کیرئیر جاری رکھ سکیں گے بلکہ دو سال کے اندر اندر ملکی سیاست کے طاقتور ترین کھلاڑی کا روپ دھار لیں گے۔

اس وقت ان کے ہمسفروں میں درجنوں دیگر صحافیوں کی طرح بی بی سی اردو سروس کے نگرانِ وقت محمد حنیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی اس ناکام کوشش پر اپنے تجزیے کو یوں سمیٹا: 'اس سارے شور شرابے اور دھکم پیل کے درمیان نواز شریف کے چہرے پر پہلی دفعہ مکمل سکون تھا۔ اس شخص کا سکون جس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے ہوں۔

بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔

سولہ مارچ دو ہزار نو کو ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے اعلان کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو محمد حنیف کے یہ الفاظ الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ سن دو ہزار میں سیاسی تکالیف سے منہ پھیر لینے والا نواز شریف آج ایک ایسے سیاستدان میں بدل گیا ہے جو اپنے بدترین خدشات کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھ چکا ہے، اس تلخ حقیقت سے نمٹ چکا ہے اور اب دن بدن نئی سمتوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ایسا کرنا میاں نواز شریف کے لیے کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ ان کے اپنے ماضی سے لگایا جا سکتا ہے۔

بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔ وہ انوکھا لاڈلا جسے یہ یقین تھا کہ وہ کھیلن کو چاند بھی مانگے گا تو اسے ملے گا۔

اسی لیے اقتدار میں آنے کے دو ہی سال بعد وہ ایک طاقتور صدر سے بھڑ بیٹھا۔ قسمت کا لاڈلا تھا اس لیے حکومت گنوانے کے باوجود وہ صدر کو بھی لے بیٹھا اور یوں جنرل ضیاالحق کے اندھیروں کے تسلسل میں امید کی ایک نئی کرن پھوٹی۔

دوبارہ اقتدار میں آیا تو پہلے صدر، پھر چیف جسٹس اور پھر آرمی چیف کو چلتا کر دیا۔ یہ تمام اقدامات ایسے تھے جنہیں اٹھانے کی ہمت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی غیر فوجی حکمران کو نہیں ہوئی۔ تو پھر کیا عجب کہ انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خود کو امیر المومنین اور پاکستان کو ایک مذہبی آمریت بنانے کا بھی خواب دیکھا۔

یہ درست ہے کہ قدرت نے ان کی اس خواہش کو رد کیا لیکن اس کے ساتھ ہی شاید یہ بھی قدرت کے لاڈ پیار کی ایک مثال تھی کہ وہ ایک بددماغ فوجی سربراہ کو دو گھنٹے ہوا میں لٹکائے رہنے کے باوجود بھی پاکستان سے زندہ بچ کر نکل گئے۔

اس نوعیت کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر ظاہر ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد کسی کے لیے بھی ان کے تابناک سیاسی مستقبل کی پیشن گوئی کرنا نا ممکن تھا۔ عام توقعات یہی تھیں کہ وہ کچھ عرصہ تو صدر سے اپنے بدلے چکانے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے اور پھر اقتدار کی مار دھاڑ میں غرق ہو کر ایک محدود سیاسی دھڑے کے سربراہ کے طور پر گجرات کے چوہدریوں کی طرح زیادہ سے زیادہ لاہور کے چودھری بن بیٹھیں گے۔

قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔

لیکن میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے پہلے دن سے ہی اپنے سیاسی تدبر سے مبصرین کو حیران کر ڈالا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بینظیر بھٹو سے ایسی گاڑھی سیاسی یاری لگائی کہ دونوں دن میں چھ چھ دفعہ ایک دوسرے سے بات کرتے، ہر مشکل موڑ پر ایک دوسرے سے مشورہ کرتے اور ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے نہ تھکتے۔

اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے صدر پر تو کڑی تنقید جاری رکھی لیکن اپنی ذاتی انا یا خواہشات کو سیاسی عمل میں خلل ڈالنے کا موقع نہ دیا۔ انہیں صدر مشرف کے تجویز کردہ سیاسی نظام سے نفرت تھی لیکن انہوں نے بینظیر بھٹو کے کہنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آٹھ سال تک اقتدار سے باہر رہ چکے تھے لیکن وطن واپسی کے بعد حصول اقتدار کی بجائے انہوں نے معزول ججوں کی بحالی کو اپنا منشور بنایا۔ اس دوران جسے بھی ملے، اسے اپنی سوچ اور فکر کے ٹھہراؤ سے متاثر کیا۔ ایک ایک کر کے بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ شاید وہ نواز شریف نہیں جو آٹھ سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر چلا گیا تھا۔

قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔

یہ میاں نواز شریف کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ پنجاب کے عوام آصف علی زرداری کی قیادت کو رد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی جانب واپس لوٹے اور ان کی جماعت کو ماضی کی طرح ایک بھرپور مینڈیٹ دیا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مرحلے پر کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ ان کے قدم نہ چوکتے۔ وہ عدلیہ کے مسائل بھلا کر اقتدار کی جنگ میں کود سکتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے یا پھر اس کی حمایت کے بدلے پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی اقتدار کا ایک بڑا حصہ اینٹھ سکتے تھے۔

لیکن انہوں نہ اپنا قبلہ درست رکھا۔ صرف ججوں کی بحالی کی بات کی، پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مدد دینے میں ججوں کی بحالی کے سوا کوئی شرط نہ رکھی، نواز لیگ وزراء کو کالی پٹی باندھنے کی شرط پر صدر مشرف سے حلف لینے کی بھی اجازت دے دی۔ پھر ججوں کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر اٹھائے لیکن حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وکلاء تحریک کی حمایت جاری رکھی لیکن دھرنا دینے پر اس وقت تک آمادہ نہ ہوئے جب تک آصف علی زرداری کی دروغ گوئی لا ریب فی نہ ہو گئی۔

اور پھر جب دھرنے کا وقت آیا تو پنجاب میں ان کی حکومت گر چکی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت کی بحالی کی بجائے ججوں کی بحالی کو ہی ہدف رکھا۔ وزارت داخلہ کی تمام تر کوششوں اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ہزاروں کا جلوس نکالا جس کے سیاسی جوش اور طاقت کے سامنے صدر آصف علی زرداری کی ضد پانی کی طرح بہہ گئی۔

سب سے اہم یہ کہ ججوں کی بحالی کا اعلان ہوتے ساتھ ہی لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا نہ کہ اپنی سیاسی طاقت کے اس شو کے بل بوتے پر اپنی حکومت کی بحالی کا مطالبہ۔ نتیجتاً وہ مفاہمتی فضا جو صدر زرداری کی مسلسل وعدہ خلافی اور پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد دم توڑ رہی تھی ایک بار پھر بہار دکھلانے لگی۔

کیا آج سے دو سال قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ مہنگے بلوں، رومانوی گانوں اور مرغن کھانوں کا شوقین، قدرت کا یہ لاڈلا سالہا سال تک اپنی ذات کی سیاست کرنے کے بعد پاکستان میں اصولی سیاست کی ضمانت کے طور پر ابھرے گا؟

میاں نواز شریف نے ججوں سے متعلق ایک سوال پر پچھلے سال از راہ مذاق صحافیوں سے کہا تھا کہ زبان کے معاملے میں وہ ’سکھ‘ ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے کڑے سے کڑے ناقدین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ بعد میں جو بھی ہو لیکن فی الوقت چار سو ایک ہی آواز ہے اور وہ یہ کہ سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ