Friday, December 9, 2011

پاکستان کیوں ٹوٹا ؟

پاکستان کی تاریخ یوں تو ہمہ وقت کسی نہ کسی “نازک موڑ” پر کھڑی رہتی ہے، جس کا آمروں نے خوب فائدہ اٹھایا اور وہ اپنی حکومتوں کو اس جملے کی گردان کے ساتھ طول دیتے رہے کہ “پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے” لیکن حقیقتاً قومی تاریخ میں اگر کوئی نازک موڑ تھا تو وہ 1971ء کا سال تھا جس سال پاکستانی فوج و سیاست دانوں کے عاقبت نااندیشانہ فیصلوں نے قائد کے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔
جس کسی نے بھی حمودالرحمٰن کمشن کی رپورٹ پڑھی ہے وہ جانتا ہے کہ اس میں سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار خالصتاً فوجی قیادت کو ٹھہرایا گیا تھا۔
  قائد کے پاکستان کے ٹوٹنے کی وجوہات زیر غور آتی ہیں اور بالآخر “رات گئی بات گئی” کی طرح ختم ہو جاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی ان وجوہات سے سبق حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال میں انہی غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور بہت ساری باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں بہت کم زیر غور لایا جاتا ہے۔ اب آزادئ اظہار رائے کا دور ہے، بہت سارے پہلوؤں پر کھلے عام بحث کی جا رہی ہے ورنہ کچھ عرصہ قبل تک عام آدمی کے ذہن میں تصور ہی یہی تھا کہ بنگالیوں نے پاکستان سے غداری کی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹا۔

اس وطن کے قیام میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پھر 1971ء میں اس کو بچانے کے لیے بھی ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں دیں لیکن دلوں میں موجود نفرتوں کا لاوا سب کچھ جلا کر راکھ کر گیا۔ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی، فوج کی ہر معاملے کو بزور قوت حل کرنے کی پالیسی، جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنے کی حکمت عملی نے سب کچھ خاک میں ملا دیا.71ء کی جنگ کے دوران پاکستان کا سرکاری میڈیا “سب اچھاہے” کہ راگ الاپ رہا تھا اور ٹائیگر نیازی کے یہ بیان بھی پیش ہوتے تھے کہ “ڈھاکہ فتح کرنے کے لیے دشمن کو میری لاش پر سے گزرنا ہوگا”۔ دوسری جانب مغربی پاکستان کی عوام کو حقیقت سے بالکل بے خبر رکھا گیا. میں کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر، جو ڈھاکہ میں جماعت کے امیر بھی رہ چکے ہیں، خرم مراد صاحب کی خود نوشت “لمحات” پڑھ رہا تھا۔ مرحوم کیونکہ خود ڈھاکہ میں رہ چکے تھے اور اُن ایام کو اپنی نظروں سے دیکھ چکے تھے جس میں یہ عظیم سانحہ رونما ہوا اس لیے ان کی کتاب اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
ان کی کتاب “لمحات” اور دیگر چند کتب پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سب سے اہم سبب یہاں کی عسکری و سیاسی قیادت کا غیر جمہوریت پسندانہ رویہ تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر کئی وجوہات ہیں، جن کا ذکر یہاں کروں گا۔
مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی چند انتہائی بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک آبادی کے لحاظ سے وہ زیادہ بڑا علاقہ تھا جس کی وجہ سے کہ مغربی پاکستان کی نوکر شاہی اور عسکری قیادت کو یہ “خطرہ” لاحق ہو گیا کہ اگر سیاسی نظام کو جمہوری انداز میں چلنے دیا گیا تو بنگالی برسر اقتدار رہیں گے۔ اسی وجہ سے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو  غلام محمد نے برطرف کر کے پاکستان کے سیاسی نظام میں ایسی بدعت کا آغاز کیا جس کا خمیازہ بعد میں آنے والی کئی جمہوری حکومتیں بھگتتی رہیں۔ مغربی پاکستان میں دارالحکومت کراچی میں بیٹھ کر ایسی نوکر شاہی اور عسکری قیادت، جس کا 90 فیصد مغربی پاکستان کے باشندوں پر مشتمل ہو، حکومت چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ فوج اور نوکر شاہی تو کسی کی دال نہ گلنے دیتی، یہ تو خواجہ ناظم الدین جیسے شریف النفس انسان تھے، جن کو ہٹانے سے جمہوری حکومتوں کے قتل کا سلسلہ چل نکلا۔ رہی سہی کسر محمد علی بوگرہ کی حکومت کے خاتمے نے پوری کر دی جن کے دور میں دستور ساز اسمبلی ایک ایسی ترمیم منظور کرنے جا رہی تھی جس میں گورنر کے اختیارات کو کم کیا جانا تھا لیکن غلام محمد نے پہلے اسے برطرف کر دیا، یوں مطلق العنان آمریت کی مضبوط بنیاد ڈال گئے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے یہ دونوں بازو ہزار میل کے فاصلے پر صرف اور صرف اسلام کے رشتے سے جڑے تھے۔ جب قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں نے اسلام میں دلچسپی ہی نہ دکھائی تو پھر یہ رشتہ بے معنی تھا۔ وہاں سوشلسٹ اور سیکولر نظریات پھلتے پھولتے رہے اور انہی سے بنگلہ قوم پرستی نے بھی جنم لیا تو یہ جلتی پر تیل والا کام ہو گیا۔
تیسری اہم وجہ ہماری قیادت کا بے وجہ جذباتی پن تھا جس میں بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ نہ دینا تھا۔ اس بے جا اصرار کے نتیجے میں بنگالی قوم پرستوں کو عوام کے جذبات سے کھیلنے کا موقع ملا۔ “سرکاری زبان صرف اردو ہوگی” کا نعرہ تو لگا لیا گیا لیکن یہ محض جذباتی نعرہ تھا اور نتیجہ وہی ہوا کہ اردو آج تک سرکاری زبان نہ بن سکی اور بنگالی بولنے والے بھی ہم سے الگ ہو گئے۔ اس خواہ مخواہ کی کشمکش نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشندوں کے درمیان نفرت کے بیج بو دیے اور زبردست انتشار پیدا ہوا جو بالآخر سقوط مشرقی پاکستان پر منتج ہوا۔
پھر ماحول ایسا تخلیق کر دیا گیا کہ جس میں مغربی پاکستان کے باشندوں کے بنگال کے باشندوں کے مقابلے میں احساس تفاخر و برتری تھا اور وہ انہیں کم تر سمجھتے تھے۔ بنگال کے باشندوں کی ذہانت، حب الوطنی، قوت اور صلاحیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور انہیں دیگر قوموں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیے جاتے۔

چوتھی اہم وجہ وسائل کی تقسیم میں زبردست عدم توازن تھا اور یہ تک کہا گیا کہ “مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے” لیکن اس کے باجود 25 سالوں میں مشرقی پاکستان میں جس بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا تو بالکل درست نہیں ہوگا کہ اقتصادی لحاظ سے بنگال کا علاقہ تقسیم ہند کے بعد مزید کمزور ہو گیا البتہ صوبوں کے درمیان وسائل کی یکساں تقسیم کا مسئلہ اُس وقت بھی آج ہی کی طرح گمبھیر تھا۔
پانچویں ایک اہم وجہ، جس پر کم دھیان دیا جاتا ہے، دارالحکومت کا کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا جانا تھی۔ کراچی پاکستان کی تمام اقوام کا شہر تھا جو حقیقتاً پاکستانیت کا مظہر بھی تھا۔ اس کے مقابلے میں جس نئے دارالحکومت کا انتخاب کیا گیا وہ فوج کے صدر دفاتر (جی ایچ کیو) کے دامن میں واقع تھا اور یوں سیاست دانوں پر واضح کر دیا گیا کہ اب حکومت فوج کی گود میں بیٹھ کر چلے گی۔ دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی نے بھی بنگالیوں کے ذہنوں پر بہت کچھ واضح کر دیا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے جمہوری حق کو ختم کرنے کے لیے ایک اور چال چلی جا چکی ہے۔
چھٹی سب سے بڑی اور اہم وجہ 1970ء کے انتخابات کے بعد فاتح عوامی لیگ کی اقتدار میں آنے کی تمام راہیں مسدود کرنا تھی جس کی مغربی پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت نے مل کر بھرپور کوشش کی۔ گو کہ 1970ء کے انتخابات میں بھی شیخ مجیب الرحمٰن نے علیحدگی کا نعرہ نہیں لگایا تھا کہ بلکہ انہوں نے “چھ نکات بھی نافذ ہوں گے اور پاکستان بھی ایک رہے گا” کا بیان تک دیا۔ چاہے ان کے ارادے کچھ بھی ہوں، لیکن ان کے اس بیان سے اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں اس وقت بھی پاکستان مخالف جذبات اتنے زیادہ نہیں تھے، وہ مغربی پاکستان کی فوج اور افسر شاہی کے ضرورخلاف تھے اور اپنا آئینی و قانونی حق ضرور مانگتے تھے لیکن وہ وفاق پاکستان کے ہر گز خلاف نہ تھے یہی وجہ ہے تھی کہ مجیب الرحمٰن کو اس طرح کے بیانات بھی جاری کرنا پڑے ۔
25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے قبل عوامی لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان سے علیحدگی کے حوالے سے بحث کے بعد بھاری اکثریت نے پاکستان کے ساتھ رہنے اور اسے برقرار کھنے پر رائے دی۔ اس میں صرف عوامی لیگ کی حامی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ واحد تنظیم تھی جس کی مرکزی کمیٹی نے پاکستان کے حق میں رائے نہ دی۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ آپریشن کے آغاز سے قبل ہی علیحدگی چاہتے تھے غلط تھا۔ اوپر سے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا ہٹ دھرمی والا رویہ بھی تابوت میں آخری کیل بن گیا۔
گو کہ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن میں خرم مراد مرحوم کی خود نوشت سے ایک اہم اقتباس یہاں پیش کرنا چاہوں گا ، جس میں انہوں نے سقوط مشرقی پاکستان سے قبل کے چند اہم واقعات کو پیش کیا ہے:
یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ “کیا مجیب الرحمن پاکستان کے لیے سنجیدہ تھے، اور کیا ان کو اقتدار دے دیا جاتا تو پاکستان ایک رہتا؟” ہمارا اصولی موقف یہ تھا کہ “چونکہ انتخابات ہو گئے ہیں، اسمبلی میں عوامی لیگ کی اکثریت ہے، اس لیے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کر دیا جائے۔” لیکن اس صاف اصولی موقف کے باوجود میں بھٹو صاحب کی اس بات کو بالکل بے وزن نہیں سمجھتا، جس کے مطابق اس بات کا بڑا خطرہ تھا کہ عوامی لیگ اسمبلی کے اجلاس میں آنے کے بعد پاکستان توڑنے کی قرارداد پاس کر دیتی۔ پھر اس کے بعد کسی کے بھی بس میں نہیں تھا کہ پبلک کے نمایندوں کے فیصلہ کو قانونی طور پر روک سکے۔ جبکہ یہ اسمبلی دستور ساز تھی۔
پھر یہ خوف بھی پایا جاتا تھا کہ پاکستان کو اپنے وسائل و ذرائع میں سے علاحدہ ہونے والے حصے کو اثاثہ دینا پڑتا۔ مثال کے طور پر خزانہ، اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں اور اثاثہ جات میں آدھے سے زیادہ حصہ ادا کرنا پڑتا کیونکہ اسمبلی کی قرارداد سے یہ ایک قانونی اور دستوری کارروائی ہوتی۔ اس کے برعکس بغاوت کے نتیجے میں علاحدگی میں یہ ذمہ داری نہ ہوتی۔ ممکن ہے کہ مغربی پاکستان کے فیصلہ ساز لوکوں کو سامنے یہ بات بھی ہو، اس لیے وہ “بے دام علاحدگی” کو اپنے حصے کےلیے “نفع بخش سودا” تصور کرتے ہوں گے۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 25 مارچ کے آرمی ایکشن کے بعد کراچی جا کر بیان دیا کہ “خدا کا شکر ہے، پاکستان بچا لیا گیا”۔ آرمی ایکشن کے غلط فیصلے کے باوجود، میں بھٹو صاحب جیسے ذہین آدمی سے یہ توقع نہیں رکھتا، کہ انہوں نے یہ بیان محض آرمی ایکشن کے حوالے سے دیا ہوگا۔ یقیناً ان کے سامنے کچھ اور باتیں بھی ہوں گی۔ اگرچہ ان باتوں میں تلخی پیدا کرنے اور ہٹ دھرمی کی آگ بھڑکانے کا ایک بڑا فعال سبب وہ خود بھی تھے۔
25 مارچ 1971ء تک مجیب الرحمٰن نے یہ نہیں کہا کہ “آزاد بنگلہ دیش بننا چاہیے”۔ حالانکہ اس دوران مغربی پاکستانی فوجی حکمرانوں اور مغربی پاکستان جو بہرحال ایک سیاسی اکائی نہیں تھا، بلکہ چار صوبے تھے، اس میں سے دو بڑے صوبوں کے سیاسی قائد مسٹر بھٹو نے مشرقی پاکستانی قیادت کا پیمانہ صبر لبریز کر دیا تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان وہ المیہ ہے جس کی سراسر ذمہ داری ہماری فوج پر عائد ہوتی ہے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” میں لکھا ہے کہ جنرل یحیی کے ایک جرنیل نے یہ الفاظ ادا کیے تھے “آپ لوگ فکر نہ کریں، ان کالے حرامیوں کو ہم خود پر حکومت نہ کرنے دیں گے”۔ لوگ بھٹو اور مجیب کو اس تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ چھوٹے کردار تھے اصل اور گھناؤنا کردار فوج نے ادا کیا۔ اور 70ء کے انتخابات کے بعد جمہوریت کا گلہ گھونٹنے کا خمیازہ ہمیں اس صورت میں ہی بھگتنا تھا۔ بھارت جو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے صورتحال سے پورا فائدہ اٹھایا۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
 قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ امریکنوں کی طرف سے سینیٹری کا سامان بطور تحفہ آیا، کیبنٹ میں بیٹھے کسی بنگالی نے اس میں سے حصہ مانگا تو مغربی پاکستان کے وزیروں نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا

”تم لوگوں نے سینیٹری کا سامان کیا کرنا ہے؟ تمہیں تو رفع حاجت کے لئے کیلوں کا جھنڈ ہی کافی ہے“ ۔
یہاں یاد پڑتا ہے کہ شہاب صاحب نے ”جھنڈ“ کی بجائے ”کیلوں کی گاچھ“ کے لفظ استعمال کئے تھے جس کی حب الوطنی کو مزید اطمینان چاہئے وہ قدرت اللہ شہاب کا ”شہاب نامہ“ پڑھ لے تو خاصا افاقہ ہو جائے گا۔

.
سالہا سال بنگال کا استحصال ہوتا رہا، وہ ذلیل و خوار ہوتا رہا لیکن مغربی پاکستان میں کس کو فکر تھی؟ کتنے ٹائر جلے اور کتنی ہڑتالیں ہوئیں؟ آج بھی اسلام آباد اور لاہور میں خود کش حملے ہوئے تو لوگوںکو یاد آیا کہ وزیرستان میں 2002 سے آپریشن ہو رہا ہے، گھر برباد اور بازار اجڑ گئے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔
بس چھوڑیں صاحب۔۔۔ دل نہ جلائیں اپنا بھی اور ہمارا بھی۔۔۔

No comments: