Friday, December 9, 2011

جاوید احمد غامدی المعروف کاکو شاہ اور امریکی اسلام

المیہ یہ نہیں کہ لوگ دین کا فہم نہیں رکھتے بلکہ یہ ہے کہ بعض قوتیں دین کا نام لے کر دین پر حملہ آور ہیں دینی اصلاحات کی آڑ لے کر دین کی روح کو کچلنے کے درپے ہیں ان کے عزائم مخفی ہیں نہ ہتھکنڈے نئے بلکہ سب کچھ واضع اور صاف نظر آنے کے باوجود تحفظ دین کے ذمداران اچکوں کی وارداتوں پر مہر بلب ہیں، بلکہ اٹھائی گیروں کی حرکتوں کو دیکھنے اور جانتے ہوئے چپ ہیں کہ انتہا پسندی کا الزام نہ لگ جائے، ہماری رواداری پر دھبہ نہ لگ جائے دین چاہئے بدنام ہو اس کا چاہئے کوئی حلیہ بگاڑ دے بس ہم پر الزام نہ آئے ہمیں کانٹا نہ چھبے ہمیں برا نہ کیا جائے۔۔
اس احتیاط پسندی کا نتیجہ ہے کہ آج کاکوشاہ جیسے لوگ شارح دین ہونے کے دعویدار ہیں دین کی روح سے ناواقف لوگ اجتہاد کی کبڈی میں مصروف ہیں اور حالت یہ ہے کہ کشمالہ طارق کہتی ہیں (میں اجتہاد کروں گی) اجتہاد کیا ہے؟؟؟۔۔۔ اس کی شرائط کیا ہیں؟؟؟
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا، جن لوگوں نے صحابہ کرام کے طرز عمل اور اسوہ کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آڑ سمجھا، انہوں نے اجماع صحابہ اور اجماع امت سے منہ پھیرلیا۔ جنہوں نے فقہائے کرام کی تحقیقات وتدقیقات اور استنباط کو اپنی نفس پرستی اور خواہش پرستی کے سامنے دیوار سمجھا، انہوں نے فقہائے کرام کی تقلید کاسرے سے انکار کردیا۔
ٹی وی پروگراموں سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی جو دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے ہیں اور ان کی عقل رسا میں جو مسئلہ فٹ نہیں بیٹھتا تو اس کا انکار کرنا اپنا فرض منصبی اور ضروری حق گردانتے ہیں۔ موصوف کی کج راہیوں کی ایک طویل فہرست ہے، مختصر یہ کہ مسلمات امت کے باغی، ہم جنس پرستی کے مجوز، حد رجم کے قائل نہیں، سزائے ارتداد کے منکر، اجماع امت اور حدیث سے نالاں اور خفا ہیں۔
یوں تو ...جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ... جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے بے شمار منصوص اور قطعی عقائد اور اسلامی نظریات کے بارہ میں قرآن، سنت، اجماع امت اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تعامل کے خلاف الگ راہ اختیار کی ہے، تاہم ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: وہ سزائے ارتداد کے منکر ہیں، وہ رجم کے حد شرعی ہونے سے انکاری ہیں، وہ مرد اور عورت کی دیت میں فرق کے قائل نہیں، وہ حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدہ کے منکر ہیں، وہ فرد کی حد تک جہاد کے منکر ہیں، وہ افراد امت کو نہی عن المنکر کا مامور نہیں مانتے، وہ اجماع امت کو پرکاہ کا درجہ نہیں دیتے، وہ سنت کے قائل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 
اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار اور دینی روایات کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے اعمال و فیصلوں سے لے کر آئمہ احادیث تک سے اختلاف کرتے ہیں اور جہاں دال نہ گلے قرآن کو چھوڑ کر تورات اور انجیل تک سے اپنے مقصد کے احکامات نکال لینے میں ثانی نہیں رکھتے۔ خود کو علامہ کہلواتے ہیں لیکن مبلغ علمی اتنا ہے کہ بی اے کرنے کے بعد علم کا دورہ پڑا اور پھر ازخود مطالعہ کرتے کرتے مجتہدین بن بیٹھے۔ ان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر چند برس بعد ان کے نظریات میں جوہری تبدیلی واقع ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھی انہیں چھوڑ جاتے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے نظریات بلکہ ساتھیوں کو بھی چھوڑ کر اگلی منزلوں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔۔۔
حددو اللہ کے خلاف سازش کی قیادت کے علاوہ موصوف پورے اسلامی معاشرے کو روشن خیال بنانے کی فکر رکھنتے ہیں اسی باعث ان کے نزدیک، گانا بجانا، رقص و سردوست جائز ہے پردہ جہالت کی نشانی ہے اگر مغرب پسند نہیں کرتا تو ہمیں پردہ پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ ستر عورت کے حوالے سے ان کے خیالات میں تغیروتبدل آتا رہتا ہے بعض اوقات جذباتی ہو کر یہاں تک چلے جاتے ہیں کہ فقہ حنفی میں مرد و عورت کا ستر برابر ہے سوال کریں کہ یہ حنفی کی کونسی کتاب میں ہے تو جواب دل و دماغ کو باغ باغ کردیتا ہے فرماتے ہیں کہ اب کسی کتاب میں مرقوم نہیں، امام یوسف نے
بعد میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بدل دی تھی۔
موصوف کا تازہ ترین فرمان ہے کہ قرآن کے تمام تر احکامات عملدرآمد کی خاطر نہیں۔ اکثر کا تعلق ریاست مدینہ کے دور سے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنت کو آپ نہیں مانتے بلکہ آپ کے نزدیک سنت صرف وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک تواتر سے ثابت ہو یعنی سنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتناء نہیں۔ قرآن پورے کا پورا قابل نفاذ نہیں حدیث کی ثقاہت پر آپ کو اعتراض ہے تو دین کہاں گیا؟؟؟۔۔۔ یہ دین تا قیامت رہنمائی کیسے کرے گا؟؟؟۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو برس بعد آپ پر یہ انکشاف کیسے ہوگیا کہ قرآن کے تمام احکامات قابل عمل نہیں اور پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا حکم آج کے لئے ہے کون سا متروک ہوچکا ہے موجودہ حکومت کے شارح دین کو جہاد سے بھی خاصی چڑ ہے ان کا نقطہ نظر ہے کہ طاقتور کو حق حاصل ہے کہ وہ کمزور کو دبالے لہذا افغانستان اور عراق پر امریکہ کا قبضہ جائز اور انکی مزاحمت ناجائز ہے۔۔۔
ایسی ہوا چلی کہ صرف کاکوشاہ المعروف غامدی اکیلے اپنی پانچوں تانگے کی سواریوں سمیت حکومت کی آنکھ کا تارہ بن کر طلوع ہوئے ہر ٹیلویژن اسکرین انہی کے رُخ (روشن) سے (منور) نظر آنے لگی۔ اشفاق احمد فو ہوئے تو پی ٹی وی نے ان کی جگہ بھی جناب غامدی کو لا بٹھایا جو بڑے دھڑلے سے اسلام کے پردے میں فکر غامدی کی ترویج میں مصروف ہیں سرکاری غیر سرکاری الیکڑانک میڈیا میں ان کا ڈنکا بجتا ہے اور رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ جو آج بھی نیٹ پر دستیاب ہے اس کا ایک ایک حرف عملدرآمد کے مراحل طے کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔۔
قصرابیض کے روسیاہ دین حنیف کا جس طرح سے حلیہ بگاڑ کر اسے اپنے معاشرے کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ماڈل میں کاکوشاہ کا مرکز روشن خیالی اس کے عین مطابق تشریحات گھڑتا چلا جا رہا ہے امریکیوں کو پردے سے چڑ ہے۔۔۔۔ فکر غامدی پردہ غیر ضروری فعل ہے۔۔۔
وائٹ ہاؤس کو جہاد سے دشمنی ہے۔۔۔۔ فکر غامدی کے لئے ایسی ایسی ناممکن العمل شرائط لگا کر جہاد کی راہ روک رہا ہے کہ جس کا کسی کو ماضی میں خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔۔۔
صدر بش کو اسلام سے افغانستان اور عراق پر حملہ کی حمایت چاہئے۔۔۔۔فکر غامدی حدیث اور سنت کو غیر معتبر قرار دے کران کی راہ ہموار کر رہا ہے۔۔۔مغربی خبث باطن توہیں رسالت پر آمادہ ہے۔۔۔۔فکر غامدی توہیں رسالت کی سزا پر معترض ہے اور اہل مغرت کو اس کا حق دیتا ہے۔۔۔ امریکی بدمعاش مسلمان اور قرآن کا تعلق توڑنا اور تقدس ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔فکر غامدی قرآن کے احکامات کو دور حاضر کے لئے ناقابل عمل قرار دیتا ہے۔۔۔مغربی صلیبی قرآن کے مقابلے میں جعلی کتاب لاتے ہیں۔۔۔فکر غامدی اسے ان کا حق مانتا ہے۔۔۔ اور اب امریکی حکمران پاکستان میں حدود قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔۔۔فکر غامدی کا سرخیل اس مہم کا نگران قرار پاتا ہے۔۔۔۔وہ مسلمان کے نصاب تعلیم میں غیر اسلامی کلچر داخل کرنا چاہتے ہیں یہ اسکولوں میں اسلامیات پڑھانے کی مخالفت کرتا ہے۔۔۔۔
کیا اب بھی یہ مان لیا جائے کہ فکر غامدی اور امریکی استعمار کی خواہشات میں مشترکات محض (اتفاق) ہے کی اب بھی اس دور کے فیضی کو شک کا فائدہ دیا جائے گا؟؟؟۔۔۔۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب غامدی صاحب قادیانیوں جیسے منکرین ختم نبوت ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے باغیانِ رسول اور ملعونوں کو مسلمان باور کرانااور دکھانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو جو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، یہ فیصلہ دینا پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا، اگر وہ یہی کہنا چاہتے ہیں تو یہ بات موصوف کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ فیصلہ صرف پاکستانی پارلیمنٹ کا نہیں ،بلکہ اگر انہیں قرآن و سنت سے کوئی علاقہ و تعلق ہے تو ان کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر و غیر مسلم ہے، اس کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اب اگر کوئی شخص قرآن و حدیث کے خلاف دعویٰ نبوت کرے اور اپنے تئیں ...نعوذباللہ... حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل و برتر کہے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے، قرآن و سنت، اسلامی اقدار اور شعائر اسلام کا مذاق اڑائے، بتلایا جائے کہ موصوف اس کو بھی مسلمان کہیں گے یا کافر؟
بہرحال غامدی صاحب! دنیا اور دنیا کے مفادات ایک نہ ایک دن ختم ہوجائیں گے اور ہمیں زندگی بھر کے لمحے، لمحے کا حساب دینا ہوگا، ہماری زبان اور قلم سے جو کچھ نکلا ہے، ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری یہ تحریریں ہمارے گلے کا طوق ثابت ہوں اور ہمیں بھی ان لوگوں کی ہمنوائی میں ان کے ساتھ کردیا جائے جو آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی تھے یا ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

No comments: