Saturday, March 28, 2009

زرداری، مکاری اور وفاداری


زرداری اور بینظیر بھٹو

آصف علی زرداری کی واحد ڈھال کسی اصول، کسی نظریے سے وفاداری ہے

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نو مارچ سن دو ہزارسات میں چیف جسٹس کی معذولی اور ان کے ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والے ججوں کی بحالی کے لیے دو سال سے جاری وکلاء تحریک کی بلآخر کامیابی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی صورت حال پر بی بی سی اردو سروس کے مدیر عامر احمد خان کا تجزیہ۔ تجزیہ تین اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس کی دوسری قسط ملاحظہ ہو:

آصف علی زرداری جب سے پاکستان کے صدر بنے ہیں انہوں نے اپنے ہر انٹرویو اور تقریباً ہر بیان میں کہا ہے کہ ان کا ہر فیصلہ اور ہر قدم بینظیر بھٹو کی وضع کردہ سیاست کے اصولوں کی روشنی میں لیا جاتا ہے۔

پہلی قسط: سنگھ از کنگ

وہ یہ بھی کہہ چکے ہیں کہ انہیں جب بھی مشکل فیصلوں کا سامنا ہوتا ہے وہ خود سے یہی سوال کرتے ہیں کہ اگر بینظیر بھٹو زندہ ہوتیں تو ایسی صورتحال میں کیا کرتی۔ اگر واقعی ایسا ہے تو کیا یہ عجیب بات نہیں کہ ان کی مقتول رہنما کی سیاست کو ان سے کہیں زیادہ ان کے سب سے بڑے سیاسی حریف میاں نواز شریف زندہ رکھے ہوئے ہیں؟

یہ پاکستانی سیاست کا کمال ہے کہ ملک کے دو بڑے سیاستدانوں نے جلا وطنی میں اپنی سیاست کی مکمل تشکیل نو کی۔ میاں نواز شریف کے نئے سیاسی اوتار کی داستان آپ اس تجزیاتی سلسلے کے پہلے حصے میں پڑھ چکے ہیں۔ اب ایک نظر بینظیر بھٹو کے سیاسی فلسفے پر۔

میاں نواز شریف کی طرح وہ بھی پہلے دن سے ہی پاکستانی سیاست کو اپنا خداداد حق بلکہ جاگیر سمجھتی تھیں۔ ان کے لیے نہ تو پارٹی کے لیے نو سال تک جنرل ضیا نامی عذاب بھگتنے والے پارٹی کارکنوں کی کوئی حیثیت تھی اور نہ ہی انہیں جمہوری اصولوں کے تحت ضیائی نظام کی باقیات ختم کرنے میں کوئی دلچسپی۔ حصول اقتدار ان کی سیاست کا واحد محور تھا بالکل جیسے کوئی بپھرا ہوا جاگیردار اپنی چھنی ہوئی جاگیر دوبارہ حاصل کرنے کے لیے بے تاب ہوتا ہے۔

شاید اسی لیے انیس سو چھیاسی میں وطن لوٹنے کے بعد وہ کسی اور سیاستدان کو خاطر میں نہ لائیں۔ وقت کے ساتھ ساتھ انہیں پاکستان کے سیاسی نظام پر جنرل ضیاء کی چھاپ کی گہرائی کا اندازہ تو ضرور ہو گیا لیکن کیونکہ اقتدار کی سیاست کی پیچیدگیاں ان کی سمجھ سے بالاتر تھیں اس لیے ان کا رد عمل ایک سیاستدان سے زیادہ ایک کھلاڑی کا رہا۔ اس وقت ان کا حریف میاں نواز شریف نہ سیاستدان تھا اور نہ کھلاڑی۔ اس وقت کا نواز شریف محض قسمت کی وہ بگڑی ہوئی اولاد تھی جس کی سیاست اوپر قدرت اور نیچے فوج کے انٹیلیجنس ادارے آئی ایس آئی نے سنبھالی ہوئی تھی۔

صدر آصف علی زرداری کو یاد رکھنا ہو گا کہ بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی تو شاید ایک ہی ہو لیکن اسے چلانے والے ہاتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان ہاتھوں کی پہنچ وہاں تک ہو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں

۔

ظاہر ہے بینظیر بھٹو نے قدم قدم پر مات کھائی۔ معاملہ خواہ صوبے میں وفاق سے تعینات کیے گئے افسروں کا اٹھا یا بھارت میں جاری سکھ بغاوت کی پاکستانی حمایت کا، بینظیر بھٹو اپنی مرضی نہ کر پائیں۔ بھنا کر حمید گل جیسے جہادی جرنیل کو آئی ایس آئی سے نکال پھینکا لیکن اس کے ڈیڑھ سال بعد ہی اپنی حکومت کھو بیٹھیں۔

اپنی پہلی برطرفی سے بطور ایک سیاستدان تو بینظیر زیادہ نہ سیکھ سکیں لیکن بطور ایک کھلاڑی وہ چند اہم نتیجوں پر پہنچیں۔ لہٰذا جب انیس سو ترانوے میں میاں نواز شریف اپنے ہی بچپنے کی نظر ہوئے تو بینظیر بھٹو نے نسبتاً واضح اہداف کے ساتھ دوبارہ اقتدار سنبھالا۔

اس بار پنجاب میں براہ راست حکومت کرنے کی بجائے انہوں نے منحرف نواز لیگی میاں منظور وٹو کا سہارا لیا، بھارت کے ساتھ تعلقات پر سخت جارحانہ رویہ اپنایا اور پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کو رام کرنے کے لیے شمالی کوریا سے پاکستان کے میزائیل پروگرام کے لیے مدد لی۔ سیاسی کھیلوں کے پے در پے پینتروں میں ان کو نہ تو اپنی سیاست یاد رہی اور نہ ہی ایک فعال حکومت قائم کرنے کی ضرورت اور اہمیت کا احساس رہا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ بھائی قتل ہوا، ایک بار پھر حکومت چھنی، شوہر پھر جیل جا بیٹھا اور خود جلا وطن ہوئیں۔

دوسری برطرفی کے بعد بینظیر بھٹو کو آئی ایس آئی سے نفرت ہو گئی یہاں تک کہ وہ اپنے انٹرویوز میں بھی کہنے لگیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی انتظامیہ بے لگام ہو چکی ہے۔ اب وہ آئی ایس آئی کو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی بھارت دشمنی سے لے کر میاں نواز شریف کی سیاسی کامیابیوں سمیت پاکستان میں ہونے والی تمام سیاسی برائیوں کی جڑ سمجھتی تھیں۔ اور اسی بنیاد پر وہ جلا وطنی میں اپنی سیاست کی تشکیل نو کرنے لگیں۔

سوئس عدالتوں می اپنے خلاف قائم مقدمات سے نمٹنے کے لیے انہوں نے جنرل پرویز مشرف سے رابطے کھلے رکھے، امریکی انتظامیہ میں اپنے خلاف پائے جانے والے خدشات کو بتدریج زائل کیا، امریکی انتظامیہ میں آئی ایس آئی کے خلاف بڑھتے ہوئے شکوک و شبہات کو اپنے مفاد میں استعمال کیا اور اپنے شوہر کو جیل سے رہا کروا لیا۔

لیکن ان تمام اقدامات سے کہیں زیادہ اہم ان کا یہ فیصلہ ثابت ہوا کہ وہ ہر حالت میں پارٹی سیاست میں متحرک رہیں گی۔ آٹھ سال کی لمبی جلا وطنی میں بھی ان کے کسی کارکن یا رہنما کو ان تک رسائی حاصل کرنے میں مشکل کی شکایت نہ ہوئی۔ دو ہزار سات کے وسط تک بینظیر بھٹو اپنے شوہر کو جیل سے چھڑا چکی تھیں، جنرل مشرف کی سیاست اپنے آخری دموں پر تھی، میاں نواز شریف اور بینظیر بھٹو فوج کو سیاست میں نہ آنے دینے کا عہد کر چکے تھے اور پوری دنیا ان کو پاکستان کی سیاست میں پھر سے فعال دیکھنے پر مجبور ہو چکی تھی۔

کیا کبھی پاکستان کو آصف زرداری میں دو ہزار سات والی بینظیر کی جھلک بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، اس وقت پاکستان کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آصف علی زرداری کی تاحال سیاست صرف اور صرف مکاری پر مبنی رہی ہے۔ اس میں ابھی تک نہ تو پارٹی، نہ سیاسی حلیفوں، نہ ملک اور نہ ہی بینظیر سے وفاداری کا کوئی عنصر سامنے آیا ہے

۔

اٹھارہ اکتوبر دو ہزار سات کو جب بینظیر بھٹو واپس لوٹیں تو عوام جنرل مشرف کی قاف لیگ، ملک کے حقیقی سیاستدانوں کے خلاف ان کی محاذ آرائی اور ملک بھر میں جا بجا ہونے والے خود کش حملوں سے عاجز آ چکے تھے۔ اسی لیے جب انہوں نے قومی مفاہمت کا نظریہ پیش کیا تو سوائے چند دل جلے مبصروں کے کسی نے ان کی مخالفت نہ کی اور نہ ہی ان کی مفاہمتی پالیسی کو موقع پرستی کہا۔

دوسری جانب بینظیر بھٹو بھی آٹھ سال پہلے ملک چھوڑنے والی مغرور و متکبر سیاستدان نہیں بلکہ لیاری میں اپنے مقتول محافظوں کے گھروں میں ان کی ماؤں اور بہنوں کے ساتھ بیٹھ کر رونے والی شفیق رہنما بن چکی تھیں۔ جس رانی کا خطاب سندھی ان کو کب سے دے چکے تھے اب وہ اپنی ہر ادا میں وہی رانی نظر آتی تھیں۔ ایک سیاسی مسیحا جسے پاکستان کے گلتے سڑتے ناسوروں کے لیے مرہم کا کام کرنا تھا۔

اپنے قتل سے چند دن پہلے ایک صحافی نے بینظیر بھٹو سے پوچھا کہ وہ اپنی سکیورٹی کے بارے میں اتنی لاپرواہ کیوں ہیں۔ اب سب کچھ پھر پہلے جیسا ہو چکا ہے نا، انہوں نے جواباً کہا۔ بینظیر کا یہ اوتار اس قدر بھرپور تھا کہ غیر رسمی محفلوں میں بڑے بڑے فوجی جرنیل بھی ماننے پر مجبور ہو گئے کہ اب صرف وہ ہی ملک کو سنبھال سکتی ہیں۔

شاید اسی لیے ان کے قتل پر صرف لوگ ہی نہیں روئے، لوگوں کے دل روئے۔ کسی نے کہا آج میری بہن گئی، کوئی بولا آج میری ماں مری۔ پورا ملک ایک برباد عاشق کی طرح سوگوار ہوا جیسے ہر کسی کو یقین ہو کہ اس بار بینظیر بھٹو اقتدار کی خاطر نہیں بلکہ عوام کی خاطر ملک لوٹی تھیں - شاید یہ جانتے ہوئے کہ انہیں قتل کر دیا جائے گا۔

بینظیر بھٹو کے قتل سے یوں لگا جیسے پاکستان یکایک برسوں پیچھے چلا گیا ہو۔ سیاسی افق پر پھر ماضی کی تاریکیوں نے غلبہ کیا اور جب اٹھارہ فروری کے انتخابات سے یہ تاریکی چھٹی تو قوم کو اس میں سے آصف علی زرداری کا ہشاش بشاش چہرہ جھانکتا ملا۔

یہ آصف علی زرداری کون تھا؟ کیا یہ انیس سو چھیاسی والی بینظیر بھٹو کا ایک روپ تھا جسے پارٹی وراثت میں ملی تھی اور جو اقتدار کو اپنا خداداد حق سمجھتی تھی؟ یا یہ انیس سو ترانوے والی بینظیر کا اوتار تھا جو اقتدار کی خواہش کے لیے ابلیس ابن ابلیس سے بھی اتحاد کر سکتی تھی؟ یا پھر یہ دو ہزار سات والی بینظیر کا نیا جنم تھا جو محاذ آرائی کے زخموں سے چور پاکستان پر مفاہمت کا مرہم رکھنے لوٹی تھی؟

جس وقت آصف علی زرداری نے صدر بننے کا ارادہ کیا اس وقت پاکستان میں ایک عام رائے یہ تھی کہ انہیں براہ راست اقتدار سے باہر رہتے ہوئے صرف پارٹی امور پر توجہ دینا چاہیے اور یوں وقت کے ساتھ ساتھ اپنے سیاسی قد کاٹھ کو بڑھاتے ہوئے پارٹی کے دل میں جگہ بنانی چاہیے۔ لیکن ان کے صدر بننے کے فیصلے میں انیس سو چھیاسی والی بینظیر کا روپ نظر آیا۔

پھر جب آصف علی زرداری نے میاں نواز شریف کے ساتھ اپنے تحریری معاہدوں کی دھجیاں اڑاتے ہوئے کہا کہ سیاسی معاہدے قران یا حدیث نہیں ہوتے تو قوم نے ان میں انیس سو ترانوے والی بینظیر کی جھلک دیکھی جو حصول اقتدار کی خاطر شیطان سے بھی ڈیل کرنے کو تیار تھیں۔

کیا کبھی پاکستان کو آصف زرداری میں دو ہزار سات والی بینظیر کی جھلک بھی نظر آئے گی یا نہیں؟ یہ کہنا مشکل ہے۔ حقیقت خواہ کچھ بھی ہو، اس وقت پاکستان کی سیاسی حقیقت یہی ہے کہ آصف علی زرداری کی تاحال سیاست صرف اور صرف مکاری پر مبنی رہی ہے۔ اس میں ابھی تک نہ تو پارٹی، نہ سیاسی حلیفوں، نہ ملک اور نہ ہی بینظیر سے وفاداری کا کوئی عنصر سامنے آیا ہے۔

اور صدر زرداری کے مسائل بینظیر بھٹو کے مقابلے میں کہیں زیادہ سنگین ہیں۔ بینظیر بھٹو کو سیاسی مکاری کے مختلف مراحل سے گزر کر ملک و قوم سے وفاداری کی منزل تک پہنچنے میں بیس سال کا عرصہ لگا۔ آصف علی زرداری کے پاس اتنا وقت کہاں۔ ان کو جو بھی کرنا ہے آج ہی کرنا ہے۔ صدر بننے سے لے کر اب تک قوم نے صرف ان کی سیاسی مکاری دیکھی ہے۔ اب انہیں اپنی پارٹی پر، اپنے سیاسی حلیفوں پر، اپنے بیرون ملک حمایتیوں پر اور سب سے بڑھ کر اپنی قوم پر ثابت کرنا ہے کہ اب تک جو ہوا وہ ان کی غلطی اور سیاسی ناسمجھی کا نتیجہ تھا۔

اور ایسا کرنے کے لیے اگر ان کا خیال ہے کہ بینظیر بھٹو کی طرح ان کے پاس بھی بیس سال ہیں تو یہ بڑی خام خیالی ہو گی۔ بینظیر بھٹو کے قتل نے پاکستان میں سیاسی قتل و غارت کی ایک نئی روایت شروع کی ہے جو اس سے پہلے صرف چھوٹی چھوٹی فرقہ وارانہ یا لسانی جماعتوں میں پائی جاتی تھی۔ اور ضروری نہیں کہ اس نئی روایت کے پاسبان مذہبی جنونی ہوں۔ یہ کوئی بھی ہو سکتا ہے۔

صدر آصف علی زرداری کو یاد رکھنا ہو گا کہ بینظیر بھٹو کو لگنے والی گولی تو شاید ایک ہی ہو لیکن اسے چلانے والے ہاتھ سینکڑوں بلکہ ہزاروں بھی ہو سکتے ہیں۔ آج کے پاکستان میں یہ بھی ممکن ہے کہ ان ہاتھوں کی پہنچ وہاں تک ہو جہاں فرشتوں کے بھی پر جلتے ہیں۔

اور ان ہاتھوں کے سامنے آصف علی زرداری کی واحد ڈھال کسی اصول، کسی نظریے سے وفاداری ہے نہ کہ وہ سیاسی مکاری جو انہیں بدتریج ایک گہری کھائی کے کنارے دھکیل لائی ہے۔ اب انہیں فوراً اپنی راہ بدلنا ہو گی کیونکہ جس راستے پر وہ اب تک چلتے آئے ہیں اس پر آگے صرف اندھیرا ہے۔

Thursday, March 19, 2009

اقوالِ بخشو !



میرا یارِ مجذوب احمد بخش جسے ہم سکول کے زمانے سے بخشو بخشو کہتے ہیں۔ اس کی عجیب عادت ہے۔ بال بچوں سے بے نیاز ہے۔ اچانک غائب ہوجاتا ہے اور پھر بغیر بتائے جن کی طرح آدھمکتا ہے۔ جس جس پرانے دوست کو اطلاع ملتی ہے وہ اقوالِ بخشو چننے کے لیے لپکتا ہے۔گھنٹوں گپ رہتی ہے اور بخشو حسبِ معمول اگلے ہفتے پھر ملیں گے کا نعرہ لگا کر مہینوں کے لیے گمشدہ ہوجاتا ہے۔

کل بھی یہی ہوا اور بخشو اپنے نادر نظریات و خیالات سے ہمیں مالا مال کر کے نکل لیا۔ کچھ اقوالِ بخشو آپ کی نذر کرتا ہوں۔

٭ نواز شریف اس وقت واحد قومی سیاستدان ہے جو وزن میں شعر پڑھتا ہے۔

٭ سلمان تاثیر وہ اڑتا تیر ہے جس کا رخ ایوانِ صدر کی طرف ہے۔

٭ رحمان ملک مٹھائی پر بیٹھی مکھی ہے۔

٭ آصف زرداری غیر خاندان سے بیاہ کر لائی گئی وہ بہو ہے جسے پیپلز پارٹی کے خاندانی بوڑھے بوڑھیاں کبھی قبول نہیں کریں گے۔

٭ پیپلز پارٹی کے ڈی این اے میں ڈیتھ وش پروگرامڈ ہے۔

٭ فضل الرحمان پچھلے جنم میں خالہ سرداراں تھے۔ جن کے بارے میں محلے کے بزرگ بتاتے ہیں کہ جنت مکانی اگر کمرے میں اکیلی بھی بیٹھی ہوں تو دیواروں کو لڑوا دیتی تھیں۔

٭ اسفند یار ولی کا اپنے دادا باچا خان کی تعلیمات سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا طالبان کا جمہوریت سے۔

٭ پرویز مشرف کی باتیں چرس کے سوٹے کی طرح ہیں۔ کش لگاتے رہو تو مزا آتا رہتا ہے۔ سگریٹ ختم ہوتے ہی سر بھاری ہوجاتا ہے۔

٭ محمود اچکزئی بلوچستان کی آزادی کی شاہراہ پر رکھا ہوا کنٹینر ہیں۔

٭ اوباما بش کا بوتل بدل بھائی ہے۔

٭ اسرائیل مڈل ایسٹ میں امریکی ٹول پلازہ ہے۔

٭ امریکہ نے چین کو انقلابی مومن سے کاروباری میمن میں تبدیل کر دیا ہے۔

٭ بھارت اس تماشائی کی طرح ہوا میں اڑنے کی کوشش کر رہا ہے جو ابھی ابھی سپر مین دیکھ کر سینما ہال سے باہر نکلا ہو۔۔۔

٭سلم ڈاگ ملینئر کا ہدایت کار اگر دیسی ہوتا تو یہ فلم کارا فلم فیسٹیول سے آگے نا جاسکتی۔

بخشو نے اور بھی نوادرات اگلے ہیں۔ لیکن ان کا تذکرہ پھر سہی۔۔۔۔

سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس



افتخار محمد چوہدری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں

حکومت کی طرف سےمعزول ججوں کی بحالی کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس ہوگئی ہے جبکہ فائنینس بِل میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اُس وقت کی اُن کی اتحادی اور موجوہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے مل کر سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد انتیس کی تھی۔ آئین میں ابھی تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ مقرر ہے۔

افتخار محمد چودھری اور سپریم کورٹ کے دیگر چار ججوں کی بحالی کے بعد اُن تمام ججوں کی اُمیدیں دم توڑ گئیں جو شاید سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئیر جج بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ایمرجنسی لگانے کے بعد سپریم کورٹ کے جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا اُن میں موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بُٹر اور جسٹس سعید اشہد شامل تھے۔

ان میں سے دو جج، نواز عباسی اور سعید اشہد، پہلے ہی ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اس ماہ کی اکیس تاریخ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

معزول ججوں میں سے کچھ نے موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دوبارہ حلف لے لیا تھا۔ ان میں جسٹس سردار رضا خان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، میاں شاکراللہ جان اور جسٹس ناصر الملک شامل تھے جبکہ سید جمشید علی جنہوں نے گزشتہ برس دوبارہ حلف اُٹھایا تھا، حلف اُٹھانے کے ایک ماہ بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔ سید جمشید علی کا کہنا تھا کہ وہ معزول جج کہلانا پسند نہیں کرتے۔

پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے جسٹس نواز عباسی کے ریٹائر ہونے کے بعد جسٹس فقیر محمد کھوکھر موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد سب سے سینئیر جج تھے لیکن دوبارہ حلف اُٹھانے اور موجودہ حکومت کی طرف سے معزول ججوں کی بحالی کے بعد وہ سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر چلے گئے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چوہدری اعجاز شامل ہیں


موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد جسٹس سردار رضا خان سپریم کورٹ کے سب سے سنیئیر جج تھے اور عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا نام چیف جسٹس کے طور پر لیا جا رہا تھا تاہم معزول ججوں کے بحال ہونے کے بعد وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔افتخار محمد چودھری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں اور دونوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کے بعد پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا تاہم یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد معزول ججوں کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد جاوید اقبال اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چودھری اعجاز شامل ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال اکتیس جولائی سنہ دوہزار تیرہ ، جسٹس سردار رضا خان نو فروری سنہ دو ہزار دس، فقیر محمد کھوکھر پندرہ اپریل دو ہزار دس ، خلیل الرحمن رمدے بارہ جنوری دو ہزار دس اور میاں شاکراللہ جان سات اگست دو ہزار بارہ کو ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گیارہ دسمبر سنہ دو ہزار تیرہ کو ریٹائر ہوں گے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ناصر الملک کے امکانات ہیں کہ وہ افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔

عدالتِ اعظیٰ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں تعمیراتی کام جاری ہے اور ججوں کے مزید چیمبرز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی اکیس مارچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں سنیارٹی جس حساب سے ہوگی اس کے مطابق افتخار محمد چودھری چیف جسٹس، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا خان، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس میاں شاکراللہ جان، جسٹس ایم جاوید بُٹر، جسٹس تصدق حسیین جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس چودھری اعجاز احمد، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس محمد قائم جان، جسٹس موسی کے لغاری، جسٹس چودھری اعجاز یوسف، جسٹس محمد اختر شبیر، جسٹس ضیاء پرویز، جسٹس میاں حامد فاروق، جسٹس سید سخی حسین بخاری، جسٹس سید زوار حسین جعفری، جسٹس شیخ حاکم علی، جسٹس محمد فرخ محمود، جسٹس صبیح الدین احمد، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس سردار محمد اسلم کے نام آتے ہیں۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ افتخار محمد چودھری قومی مصالحتی آرڈینینس اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کے مردے اُکھاڑنے کی بجائے مستقبل کو دیکھنا چاہیے۔

Wednesday, March 18, 2009

ایک سو افتخار چوہدری چاہییں!

وسعت اللہ خان




عدلیہ کی بحالی کے بعد اب عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی جدوجہد ضوروی ہے

ٹراسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے پچپن فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ یہاں کا عدالتی نظام کرپٹ ہونے کے سبب انصاف کی وسیع تر فراہمی میں ناکام ہے۔کسی بھی درجے کی عدالت کے روبرو جانے والے سائلوں میں سے چھیانوے فیصد کو پولیس یا عدالتی اہلکاروں یا وکلا کے ہاتھوں کم از کم ایک مرتبہ کرپشن کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مذکورہ جائزے میں ایک عام پاکستانی کے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔عدالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیاں نہ صرف فرسودہ بلکہ انتہائی کمزور ہوچکی ہیں۔

اس زنجیر میں پہلی بنیادی کڑی پولیس ہے۔اگرچہ موجودہ پولیس اٹھارہ سو اکسٹھ کے انڈین پولیس ایکٹ کے بجائے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر کے تحت کام کر رہی ہے۔لیکن اسکی کارکردگی کی نگرانی کے لیے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر میں جو غیر جانبدارانہ ڈھانچہ تجویز کیا گیا تھا وہ نفاذ سے پہلے ہی اتنا کمزور کردیا گیا کہ پولیس حسبِ معمول پہلے کی طرح بے خوف ہوگئی۔ ہائی وے پولیس اور پولیس ایلیٹ فورس کی تنخواہوں میں تو کسی حد تک اضافہ ہوا لیکن بیشتر پولیس کے اوقاتِ کار اور تنخواہوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔حتی کہ ایک عام پولیس والے کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولتیں تک فراہم نہیں کی گئیں۔ پولیس ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ کوئی بھی شہری بذریعہ انٹرنیٹ رورٹ درج کروا سکتا ہے۔ لیکن آج بھی ننانوے فیصد تھانے کاغذ ، قلم اور کچی و پکی رپورٹ کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں ضرور اضافہ کیا گیا لیکن عمارتیں نہیں بنائی گئیں۔ چنانچہ بیشتر نئے تھانے قبضے کی جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔
پولیس

دالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیوں میں پولیس پہلی کڑی ہے

پولیس کی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے پیشہ ورانہ غیرجانبدار طریقِ کار اپنانے کے بجائے پولیس والوں کی ترقی و تنزلی پہلے کی طرح حکومتی عمل داروں ، سیاستدانوں اور بااثر عمائدین کی آبرو سے بندھی ہوئی ہیں۔ ایک تہائی پولیس وی آئی پی پروٹیکشن کے لیے استعمال ہوتی ہے۔کہیں یہ پروٹیکشن ضروری ہوتی ہے لیکن اکثر حکومتی عملدار اس سہولت کو اپنا سٹیٹس سِمبل ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان حالات میں پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بڑھانے اور مناسب تربیت کی بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اس ماحول میں جو بھی پولیس فورس کام کرے گی اسکی وفاداری اپنے کام ، اختیارات کے درست استعمال اور ریاستی و عوامی مفاد کے بجائے طاقتور کے مفاد سے ہی جڑ سکتی ہے۔

اس کا نتیجہ ماورائے عدالت پولیس مقابلوں، دورانِ حراست قیدیوں کی ہلاکتوں ، نجی خفیہ جیل خانوں، سائل پر دباؤ، ایف آئی آر میں اصل حقائق چھپان، کمزور یا تبدیل کرن، اصل گواہوں کی حوصلہ شکنی اور جعلی گواہوں کی حوصلہ افزائی کے رحجہان اور کیس کی سنگینی کے حساب سے رشوت کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔

انصاف کی زنجیر کی دوسری کڑی تفتیشی عمل ہے۔اگرچہ کاغذی طور پر پولیس کی انویسٹی گیشن برانچ کرائم برانچ سے الگ ہے لیکن تفتیش کار جدید تحقیقی مہارت اور مطلوبہ وسائیل سے پہلے کی طرح نابلد و محروم ہیں۔ آج بھی مکہ ، لات ، چتھرول ، الٹا لٹکانا اور تیز روشنی میں ملزموں کو کھڑا رکھنا تفتیشی افسران کے محبوب طریقے ہیں۔ پولیس جائے وقوعہ سے اہم مادی شواہد اکھٹا کرنے ، جرم کی نوعیت اور ملزم کی نفسیات کی چھان بین سے زیادہ ملزم کے سماجی مقام اور بیانات سے دلچسپی رکھتی ہے۔گواہوں کو پیش کرنے کا بار بھی ملزم کو اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان کی سولہ کروڑ آبادی کے لیے کراچی اور لاہور میں دو فرسودہ فورینزک لیبارٹریز ہیں۔جبکہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے واحد لیبارٹری اسلام آباد میں تین برس پہلے چین کی مدد سے قائم کی گئی ہے۔ ان حالات میں کتنی اچھی تفتیش ہوسکتی ہے اسکا اندازہ لگانے کے لیے نوبل انعام یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

اور پھر یہ سب کچھ چالان اور قانونی دستاویزات کی صورت میں انصاف کی تیسری کڑی یعنی عدالت کے روبرو پیش ہوتا ہے۔سائیل کے لیے سب سے پہلا اور اہم کام کسی ایسے وکیل کی تلاش ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے کام میں ماہر ہو بلکہ خدا ترس بھی ہو۔نوے فیصد وکلا سائیل کو مجبور نہیں بلکہ نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھتے ہیں۔وہ سائیل کو اس کے مقدمے کی نوعیت اور کمزوریوں یا خامیوں کے بارے میں پیشہ ورانہ مشورہ دینے یا رہنمائی کرنے کے بجائے جھوٹے دلاسے دیتے ہیں۔انکی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو بلکہ جتنا التوا میں جاسکے معاشی طور پر اتنا ہی اچھا ہے۔

وکیل اور جج کے درمیان ایک اور کردار پیش کار کا ہوتا ہے جس کا کام سماعت کی تاریخ آگے پیچھے کروانا ہوتا ہے۔ وہ فائیلوں کے انبار کو اوپر نیچے کرنے پر قادر ہوتا ہے۔اس کا دارومدار اس پر ہے کہ انصاف کا متلاشی سائیل اسے کتنا خوش رکھ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر سائیل صرف شنوائی کی تاریخ لینے کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ اور جیل میں بند قیدی پورا پورا دن عدالت کے احاطے میں صرف یہ سننے کے لیے زنجیر سے بندھے بیٹھے رہتے ہیں کہ اب انکی شنوائی اگلے مہینے کی فلاں تاریخ پر ہوگی۔
وکیل

بیشتر وکلیلوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو

پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سے نابلد ہے۔لیکن عدالتی زبان انگریزی ہے۔چنانچہ سائیل کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس کاغذ پر کیا لکھا ہے اور وہ اس پر کیوں انگوٹھا لگا رہا ہے۔اگر سائیل ان کاغذوں کو جاننے کے لیے حجت کرے تو وکیل اسے یہی کہتا ہے کہ ’اللہ خیر کرے گا،تم فکر کیوں کرتے ہو۔میں ہوں نا۔‘

جہاں تک ججوں کا معاملہ ہے تو انکی تنخواہیں اور مراعات انہی کے ہم منصب بیورو کریٹس اور فوجی افسران کے مقابلے میں نہائت قلیل ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں مادی مشکلات کے باوجود ایمانداری سے نبھائیں۔لیکن وہ بھی انسان ہیں۔اور سیاسی دباؤ ، سفارش اور مالی ترغیب تو اچھے اچھوں کو ڈگمگانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔بعض جج دھڑلے سے انصاف فروخت کرتے ہیں تو بعض کسی توسط سے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ان کی تقرری و تنزلی کا دارومدار بھی انکے سیاسی رجہان ، تعلقات اور سماجی اثرو رسوخ پر ہوتا ہے۔چنانچہ ایسے ججوں کے پاس بارسوخ افراد کے مقدمات کا انتہائی رش ہوتا ہے۔یوں ایک عام اور بے یارو مددگار سائیل کی فائیل ہر پیشی کے ساتھ مزید دبتی چلی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس وقت تقریباً نو لاکھ مقدمات التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اس وقت عدلیہ کو جتنی افرادی قوت میسر ہے اور فیصلے کرنے کی جو رفتار ہے اسے دیکھتے ہوئے سال میں دو ماہ چھٹی کرنے والی عدلیہ کو یہ مقدمات نمٹانے کے لیے کم از کم پچاس برس درکار ہوں گے۔ مرے پر سو درے یہ کہ پورے ملک میں ایک نہیں بلکہ شریعت اور انگریزی قانون پر مشتمل دو عدالتی نظام جاری و ساری ہیں۔اور عدالتیں بھی ایک قسم کی نہیں بلکہ بھانت بھانت کی ہیں۔

کہنے کو کرپٹ ججوں کے کان کھینچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل قائم ہے۔جسے کوئی بھی شخص شکیت بھیج سکتا ہے۔لیکن سپریم جوڈیشل کونسل یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ جھوٹی اطلاع یا شہادت دینے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کرسکے۔اگرچہ یہ شق بالکل جائز اور مناسب ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے والا اپنے پاؤں کے نشانات چھوڑ دے۔چنانچہ عام شہری کسی بھی جج کے بارے میں درست معلومات ہونے کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایت کی ہمت نہیں کرتا۔اور یوں ایماندار ججوں کے شانہ بشانہ کرپٹ جج بھی زندگی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جرگہ سسٹم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ بظاہر جرگہ سسٹم غیر قانونی ہے۔لیکن عدلیہ کی آزادی اور سستے انصاف کی فراہمی کے علمبردار کئی ارکانِ پارلیمان اور سرکاری افسر ان جرگوں میں دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ اور چوری سے لے کر زندگی و موت تک کے فیصلے کرتے ہیں۔ عام آدمی جسے رسمی عدالتی نظام سے رجوع کرتے ہوئے ہول اٹھتا ہے۔بخوشی یا مجبوری میں ان جرگوں کے فیصلے تسلیم کرنے کو غنیمت سمجھتا ہے۔

اگرچہ افتخار محمد چوہدری اور انکے جرات مند ساتھیوں کی بحالی ایک خوش آئند قدم ہے۔لیکن تین کڑیوں پر مشتمل عدالتی ڈھانچے کو درست کرنے کے لیے ایک نہیں کم ازکم ایک سو افتخار چوہدری درکار ہیں۔

Tuesday, March 17, 2009

سنگھ از کنگ

میاں نواز شریف

پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف کی طرف سے نو مارچ سن دو ہزارسات میں چیف جسٹس کی معذولی اور ان کے ساتھ اپنے عہدوں سے مستعفی ہونے والے ججوں کی بحالی کے لیے دو سال سے جاری وکلاء تحریک کی بلآخر کامیابی کے بعد ملک میں پیدا ہونے والی سیاسی صورت حال پر عامر احمد خان کا تجزیہ۔ یہ تجزیہ تین اقساط میں شائع کیا جارہا ہے۔ اس سلسلے کی پہلی قسط ملاحظہ ہو:

ستمبر دو ہزار سات میں میاں نواز شریف لندن کے ہیتھرو ائیر پورٹ سے حکمرانِ وقت جنرل پرویز مشرف کے خلاف علم بغاوت تھامے جب پی آئی اے کے طیارے میں سوار ہوئے تو شاید ہی کوئی یقین سے کہہ سکتا تھا کہ وہ پاکستانی سیاست میں اپنے کھوئے ہوئے وقار کو بحال کرنے میں کامیاب ہو پائیں گے۔

ان کے سر پر دسمبر دو ہزار میں جنرل پرویز مشرف سے کی گئی سیاسی ڈیل کی تلوار لٹک رہی تھی۔ ان کی پارٹی آٹھ سال کی سیاسی لاوارثی سے نڈھال تھی اور ان کی سیاست کے منہ پر ایک فوجی حکمران کے ظلم سے گھبرا کر ملک چھوڑ دینے کی کالک ملی تھی۔

مشرف حکومت نے ان کے جہاز کے اسلام آباد اترنے کے چند گھنٹے بعد ہی با آسانی انہیں ایک دفعہ پھر ملک بدر کر دیا اور پورے ملک میں ان کی دوسری جلا وطنی کی مخالفت میں چند لوگ بھی گھروں سے باہر نہ نکلے۔ ایسے میں کوئی تصور بھی نہیں کر سکتا تھا کہ نہ صرف وہ بطور ایک فعال سیاستدان اپنا کیرئیر جاری رکھ سکیں گے بلکہ دو سال کے اندر اندر ملکی سیاست کے طاقتور ترین کھلاڑی کا روپ دھار لیں گے۔

اس وقت ان کے ہمسفروں میں درجنوں دیگر صحافیوں کی طرح بی بی سی اردو سروس کے نگرانِ وقت محمد حنیف بھی شامل تھے۔ انہوں نے میاں نواز شریف کی وطن واپسی کی اس ناکام کوشش پر اپنے تجزیے کو یوں سمیٹا: 'اس سارے شور شرابے اور دھکم پیل کے درمیان نواز شریف کے چہرے پر پہلی دفعہ مکمل سکون تھا۔ اس شخص کا سکون جس کے بدترین خدشات درست ثابت ہوئے ہوں۔

بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔

سولہ مارچ دو ہزار نو کو ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی کے اعلان کے بعد کی صورتحال کو دیکھیں تو محمد حنیف کے یہ الفاظ الہامی معلوم ہوتے ہیں۔ سن دو ہزار میں سیاسی تکالیف سے منہ پھیر لینے والا نواز شریف آج ایک ایسے سیاستدان میں بدل گیا ہے جو اپنے بدترین خدشات کو حقیقت بنتے ہوئے دیکھ چکا ہے، اس تلخ حقیقت سے نمٹ چکا ہے اور اب دن بدن نئی سمتوں کی جانب بڑھ رہا ہے۔

ایسا کرنا میاں نواز شریف کے لیے کتنا مشکل تھا، اس کا اندازہ ان کے اپنے ماضی سے لگایا جا سکتا ہے۔

بچپن سے ہی مہنگے امپورٹڈ بلوں سے کرکٹ کھیلنے والا یہ نوجوان اپنے باپ کی انتھک محنت کے سر پر جب بلا کوشش و خواہش پہلے پنجاب کا وزیر خزانہ، پھر وزیر اعلٰی اور آخر کار ملک کا وزیر اعظم بن بیٹھا تو اس کے لیے یہ سمجھنا ایک فطری عمل تھا کہ وہ قدرت کا لاڈلا ہے۔ وہ انوکھا لاڈلا جسے یہ یقین تھا کہ وہ کھیلن کو چاند بھی مانگے گا تو اسے ملے گا۔

اسی لیے اقتدار میں آنے کے دو ہی سال بعد وہ ایک طاقتور صدر سے بھڑ بیٹھا۔ قسمت کا لاڈلا تھا اس لیے حکومت گنوانے کے باوجود وہ صدر کو بھی لے بیٹھا اور یوں جنرل ضیاالحق کے اندھیروں کے تسلسل میں امید کی ایک نئی کرن پھوٹی۔

دوبارہ اقتدار میں آیا تو پہلے صدر، پھر چیف جسٹس اور پھر آرمی چیف کو چلتا کر دیا۔ یہ تمام اقدامات ایسے تھے جنہیں اٹھانے کی ہمت ذوالفقار علی بھٹو کے بعد کسی غیر فوجی حکمران کو نہیں ہوئی۔ تو پھر کیا عجب کہ انہوں نے ایک آئینی ترمیم کے ذریعے خود کو امیر المومنین اور پاکستان کو ایک مذہبی آمریت بنانے کا بھی خواب دیکھا۔

یہ درست ہے کہ قدرت نے ان کی اس خواہش کو رد کیا لیکن اس کے ساتھ ہی شاید یہ بھی قدرت کے لاڈ پیار کی ایک مثال تھی کہ وہ ایک بددماغ فوجی سربراہ کو دو گھنٹے ہوا میں لٹکائے رہنے کے باوجود بھی پاکستان سے زندہ بچ کر نکل گئے۔

اس نوعیت کی سیاسی تاریخ کے پیش نظر ظاہر ہے کہ ان کی وطن واپسی کے بعد کسی کے لیے بھی ان کے تابناک سیاسی مستقبل کی پیشن گوئی کرنا نا ممکن تھا۔ عام توقعات یہی تھیں کہ وہ کچھ عرصہ تو صدر سے اپنے بدلے چکانے کی کوششوں میں مصروف رہیں گے اور پھر اقتدار کی مار دھاڑ میں غرق ہو کر ایک محدود سیاسی دھڑے کے سربراہ کے طور پر گجرات کے چوہدریوں کی طرح زیادہ سے زیادہ لاہور کے چودھری بن بیٹھیں گے۔

قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔

لیکن میاں نواز شریف نے وطن واپسی کے پہلے دن سے ہی اپنے سیاسی تدبر سے مبصرین کو حیران کر ڈالا۔ انہوں نے سب سے پہلے تو بینظیر بھٹو سے ایسی گاڑھی سیاسی یاری لگائی کہ دونوں دن میں چھ چھ دفعہ ایک دوسرے سے بات کرتے، ہر مشکل موڑ پر ایک دوسرے سے مشورہ کرتے اور ایک دوسرے کو بھائی بہن کہتے نہ تھکتے۔

اس کے ساتھ ہی میاں نواز شریف نے صدر پر تو کڑی تنقید جاری رکھی لیکن اپنی ذاتی انا یا خواہشات کو سیاسی عمل میں خلل ڈالنے کا موقع نہ دیا۔ انہیں صدر مشرف کے تجویز کردہ سیاسی نظام سے نفرت تھی لیکن انہوں نے بینظیر بھٹو کے کہنے پر عام انتخابات کا بائیکاٹ نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ وہ آٹھ سال تک اقتدار سے باہر رہ چکے تھے لیکن وطن واپسی کے بعد حصول اقتدار کی بجائے انہوں نے معزول ججوں کی بحالی کو اپنا منشور بنایا۔ اس دوران جسے بھی ملے، اسے اپنی سوچ اور فکر کے ٹھہراؤ سے متاثر کیا۔ ایک ایک کر کے بہت سے لوگ یہ کہنے پر مجبور ہوئے کہ یہ شاید وہ نواز شریف نہیں جو آٹھ سال پہلے سب کچھ چھوڑ کر اپنی جان بچا کر چلا گیا تھا۔

قدرت بھی ایک بار پھر اپنے اس لاڈلے پر مسکرائی اور میاں نواز شریف کو ایک نئی زندگی یوں دی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی سربراہ بینظیر بھٹو قتل ہوئیں۔ ان کے قتل سے پیدا ہونے والے سیاسی خلاء نے جیسے راتوں رات ان کے منہ سے ان کے ماضی کی کالک دھو ڈالی۔

یہ میاں نواز شریف کے لیے ایک مشکل وقت تھا۔ پنجاب کے عوام آصف علی زرداری کی قیادت کو رد کرتے ہوئے میاں نواز شریف کی جانب واپس لوٹے اور ان کی جماعت کو ماضی کی طرح ایک بھرپور مینڈیٹ دیا۔ ماضی کے تجربات کی روشنی میں اس مرحلے پر کوئی وجہ ایسی نہ تھی کہ ان کے قدم نہ چوکتے۔ وہ عدلیہ کے مسائل بھلا کر اقتدار کی جنگ میں کود سکتے تھے، پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت سازی کی کوششوں میں رکاوٹ ڈال سکتے تھے یا پھر اس کی حمایت کے بدلے پنجاب کے علاوہ وفاق میں بھی اقتدار کا ایک بڑا حصہ اینٹھ سکتے تھے۔

لیکن انہوں نہ اپنا قبلہ درست رکھا۔ صرف ججوں کی بحالی کی بات کی، پیپلز پارٹی کو وفاق میں حکومت بنانے کے لیے مدد دینے میں ججوں کی بحالی کے سوا کوئی شرط نہ رکھی، نواز لیگ وزراء کو کالی پٹی باندھنے کی شرط پر صدر مشرف سے حلف لینے کی بھی اجازت دے دی۔ پھر ججوں کے معاملے پر وفاقی کابینہ سے اپنے وزیر اٹھائے لیکن حکومت کو غیر مستحکم کرنے کی کوئی کوشش نہ کی۔ وکلاء تحریک کی حمایت جاری رکھی لیکن دھرنا دینے پر اس وقت تک آمادہ نہ ہوئے جب تک آصف علی زرداری کی دروغ گوئی لا ریب فی نہ ہو گئی۔

اور پھر جب دھرنے کا وقت آیا تو پنجاب میں ان کی حکومت گر چکی تھی۔ لیکن انہوں نے اپنی حکومت کی بحالی کی بجائے ججوں کی بحالی کو ہی ہدف رکھا۔ وزارت داخلہ کی تمام تر کوششوں اور تمام تر ہتھکنڈوں کے باوجود ہزاروں کا جلوس نکالا جس کے سیاسی جوش اور طاقت کے سامنے صدر آصف علی زرداری کی ضد پانی کی طرح بہہ گئی۔

سب سے اہم یہ کہ ججوں کی بحالی کا اعلان ہوتے ساتھ ہی لانگ مارچ کے خاتمے کا اعلان کیا نہ کہ اپنی سیاسی طاقت کے اس شو کے بل بوتے پر اپنی حکومت کی بحالی کا مطالبہ۔ نتیجتاً وہ مفاہمتی فضا جو صدر زرداری کی مسلسل وعدہ خلافی اور پنجاب حکومت کی برطرفی کے بعد دم توڑ رہی تھی ایک بار پھر بہار دکھلانے لگی۔

کیا آج سے دو سال قبل کوئی سوچ سکتا تھا کہ مہنگے بلوں، رومانوی گانوں اور مرغن کھانوں کا شوقین، قدرت کا یہ لاڈلا سالہا سال تک اپنی ذات کی سیاست کرنے کے بعد پاکستان میں اصولی سیاست کی ضمانت کے طور پر ابھرے گا؟

میاں نواز شریف نے ججوں سے متعلق ایک سوال پر پچھلے سال از راہ مذاق صحافیوں سے کہا تھا کہ زبان کے معاملے میں وہ ’سکھ‘ ہیں۔ موجودہ حالات میں ان کے کڑے سے کڑے ناقدین بھی یہ ماننے پر مجبور ہیں کہ بعد میں جو بھی ہو لیکن فی الوقت چار سو ایک ہی آواز ہے اور وہ یہ کہ سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ، سنگھ از کنگ

انقلاب جو نہیں آیا


لاہور کے مناظر

’لگتا تھا لاہور میں کسی نے صور اسرافیل پھونک دی تھی‘

یہ سب کچھ مجھے انیس سو تراسی چھیاسی کے سندھ کی یاد دلاتا تھا جب ایم آر ڈی یا تحریک بحالی ء جمہوریت کی حمایت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے لیکن وہاں لوگ پنجاب کیطرف دیکھتے تھے کہ وہاں لوگ اٹھے ہیں کہ نہیں۔ ’پنجاب جاگا کہ نہیں، بس جی پنجاب جب تک نہیں اٹھتا کچھ بھی نہیں ہوتا‘، لوگ کہتے۔

ان دنوں بلکل اسی طرح بینظیر بھٹو کراچـي میں اپنی رہائش گاہ ستر کلفٹن سے نکل کر جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کی رکاوٹیں توڑتی ہوئي، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی بوچھاڑ میں کھلی جیپ میں لیاری جا پہنچی تھیں۔ لیاری سے لیکر کموں شہید تک لوگ ضیا ءالحق کی فوجی تانا شاہی کے خلاف میدان میں آ چکے تھے۔ لیکن پنجاب شاید ’مارشل لاء بھنگ‘ (ضياء الجق کے دنوں میں پنجاب میں کاشت ہونیوالے بھونی ہوئي بھنگ کو 'مارشل لاء' بھنگ کہا جاتا تھا) پی کر گہری ننید میں سویا ہوا تھا۔

اس سے بھی کئي سال قبل جب جب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں بلوچستان حکومت کی برطرفی اور سرحد حکومت کے احتجاجی استعفے اور نیپ پر پابندی کے خلاف مزاحمت اٹھی تھی لیکن پنجاب پھر بھی خاموش تھا جس پر عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا:

’نہ وہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ یہ فرعون دیوانگي سے جائيگا
جگاؤ خطہء پنجاب کو جگاؤ بھی
اگر وہ جاگ اٹھے تو یہ نوکری سے جائيگا‘

لیکن اہل پنجاب نہیں اٹھنے تھے نہ اٹھے۔

بنگال کے بعد بلوچستان فوجی بوٹوں تلے روندا جانے لگا۔ حبیب جالب نے پھر کہا:

’اٹھو پنجاب کے لوگو بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے‘

پاکستان جلتا رہا لیکن پنجاب سے کتیا بھی نہیں بھونکی۔

لاہور کے مناظر

نواز شریف نے اس لانگ مارچ کو 'خاموش انقلاب' کا نام دیا تھا

ذوالفقار علی بھٹو کی نیم جمہوریت اور سیویلین ڈکیٹر شپ کی جگہ پھر ضیاء الحق کی سپر مارشل لاء نے لے لی۔ پاکستان میں بونا پارٹزم کے خلاف پنجاب سمیت پورا ملک بھڑک اٹھا۔ لیکن ایک صوبے سے دوسرے صوبے تو کیا ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک ضیاء مخالف تحریکوں کی خبریں نہیں جاتی تھیں۔

انہی دنوں میں پنجابی شاعر ( شاید شفقت تنویر مرزا!) نے لکھا تھا:

’پنجابی تے نرے ڈھگے نیں
خورے اونہاں دی جاگ کدوں لہسی
بس صور اسرافیل پھوکن دی لوڑ اے
سارے جاگ پوسن‘

کل لگتا تھا لاہور میں کسی نے صور اسرافیل پھونک دی تھی اور یہ پاکستان کی تاریخ کے نہایت تجریدی مناظرتھے۔ پنجاب اٹھ کے آیاہوا تھا۔ نواز شریف ہزاروں لوگوں کا جلوس لیکر ’میں باغی ہوں‘ جیسی نظمیں کہتا ہوا راوی کا پل چڑھ چکا تھا۔ اسکی للکار اسلام آباد تھی جہاں سندھی ٹوپی پہنے صدر فوجی آمر کے اختیارات لیے ہوئے بیٹھا ہے۔

لوگ چاہے اسے کتنا قومی مصالحہ لگائيں لیکن بہت سے اب بھی سوچتے ہونگے کہ وہ پنجاب جو دو سندھی وزیر اعظموں کے قتل اور فوجی ہیلی کاپٹروں میں سندھ کے گوٹھوں کو جانیوالے انکے تابوتوں پر نہیں اٹھا، تب بھی نہیں جب ان میں سے ایک بینظیر بھٹو قتل بھی لیاقت باغ میں ہوئي۔ ’میں جن کے لیے مری وہ کاندھے لگانے بھی نہیں آئے‘، شاہ بھٹائي نے کہا تھا۔ بلوچستان میں معمر رہنما اکبر بگٹی کو قتل کیا گيا۔ سرحد روز غزہ کی پٹی بنتا ہے۔

’وہ جدوجہد جو ہم نے پانچ جولائي انیس سو ستتر میں شروع کی تھی وہ چودہ مارچ دو ہزار نو کو اپنے انجام کو پہنچی ہے۔ انقلاب شروع ہو چکا ہے۔‘ ضیاء الحق کے دنوں میں لاہور میں ریاستی تشدد و قید سہنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک کارکن آغا صالح، جو اب نیویارک میں رہتے ہیں، کہہ رہے تھے۔

نواز شریف نے اس لانگ مارچ کو ’خاموش انقلاب‘ کا نام دیا۔ یہ لانگ مارچ اس لیے بھی صرف پنجابی مارچ نہیں تھا کہ اس لانگ مارچ میں کبھی ’منی ماؤ‘ کہلانے والے سندھی سیاسی لیڈر اور دانشور رسول بخش پلیجو نہ صرف اپنی عوامی تحریک کی سندھیانی تحریک کی کارکنوں کے ساتھ شریک ہونے آئے تھے بلکہ انکی سندھیانی تحریک کی کارکن سندھ میں سے پولیس اور رینجرز کے تشدد کی چناب پار کر کے پہنچی تھیں۔ بلوچستان سے پختون رہنما محمود خان اچکزئي اور انکی پارٹی بھی اس مارچ میں تھی۔

راوی کا پل، کالا شاہ کاکو، کاموکی، ایسا لگتا تھا کہ انقلاب چـل پڑا ہے۔ ایک لمبی رات جسکی صبح اسلام آباد کے ججز کالونی میں ہوئي۔ پاکستان میں سندھ جیسی ظالم پنجاب پولیس بھی ایسا لگتا تھا کہ اس شعر کی شکل بنی ہوئي تھی:

’میں حر ہوں اور لشکر یزید میں ہوں
میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا‘

یہ سنہ انیس سو نواسی کا تہران تھا یا اٹھاسی کا منیلا یا لاہور لگتا تھا یا تراسی چھیاسی کا سندھ۔ ’شریف برادران کی گالیاں سن کر نہ جانے کیوں مجھےانیس اسی کی دہائی یاد آ جاتی ہے۔ جامعہ پنجاب میں جمعیت کے ہاکی برداروں اور لاہور اور اسلام آباد میں شریف برادران کی پولیس اور ایجینسیوں کی ہاتھوں ماریں کھانے والا ایک صحافی دوست مجھ سے کہہ رہا تھا۔ لیکن نواز شریف اور چوہدری افتخار کو دیکھ کر یاد آتا ہے کبھی کبھی فرعون کے گھر میں موسی پیدا ہوجاتا ہے۔

’اس ملک میں امام مہدی تو آ سکتا ہے لیکن انقلاب نہیں آ سکتا‘ میں نے کئي برس پہلے یہ سوچ لیا تھا۔ لیکن کل انقلاب جی ٹی روڈ پر چل پڑا تھا۔ سوۓ ہوۓ پنجاب کے کانوں میں صور اسرافیل پھونکی جا چکی تھی۔

کل ہم ٹی وی پر اور فون کانفرنس پر اکٹھے ہوۓ تھے۔ ان میں کچھ پرانے جلاوطن اور کل کے انقلابی بھی تھے، کوئی ناروے سے تھا تو کوئي لاہور، کابل جرمنی سے ہوتا ہوا سان فراسسکو اور شکاگو سے تھا۔ کوئي اس وقت چلا تھا جب ابھی اسے پوری مونچھیں بھی نہیں آئي تھیں اور اب بڑہاپے کی دہلیز پر تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جی ٹی روڈ پر چڑھا ہوا انقلاب گوجرانوالہ پر آکر رک گيا ہے۔

’یہ انقلاب کبھی گوجر خان سے آگے نہیں بڑھتا۔ بس کبھی کالا شاہ کاکو تو کبھی کاموکی پر آکر رک جاتا ہے‘ ہم میں سے ایک نے کہا۔

’ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے‘، ایک اور گویا ہوا۔

Monday, March 16, 2009

سولہ مارچ، ایک نئی’صبح آزادی‘


یہ بحالی پاکستان میں عدلیہ کے بطور ادارہ جڑ پکڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے

افتخار محمد چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی پاکستان کے سوکھے دھانوں مینہ برسنے کے مصداق محسوس ہوتی ہے کہ ایک قانون دان کے ہاتھوں وجود پذیر ہونے والے اس ملک میں قانون کے فتح یاب رہنے کی مثالیں کم ہی ہیں۔

تقریباً دو برس کی معطلی و معزولی کہیے یا جنرل مشرف ، آصف زرداری اور فاروق نائیک کے بقول برطرفی قرار دے دیجیے، ملک کے اعلٰی ترین عدالتی منصب پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی بہت سے اعتبار سے تاریخی ہے۔

انہوں نے تاریخِ پاکستان کے ایسے چیف جسٹس کا اعزاز تو پہلے ہی حاصل کر لیا تھا جس نے ہر طرح کی طاقت سے مالامال اور اسی کے نشے میں مدہوش فوجی آمر کے سامنے سر جھکانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ مستعفی ہونے کو بھی مسترد کر دیا۔ اب اس بحالی سے انہوں نے پاکستان میں بندوق پر میزان کی فتح کی اب تک کی واحد مثال بھی قائم کر دی ہے۔

درحقیقت جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کئی اور لحاظ سے بھی غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔

سب سے بڑھ کر اس بحالی سے پاکستان کی اب تک کی بدقسمت اور حالیہ دنوں میں بدنام عدلیہ کے لیے اعزاز، افتخار اور تعظیم کا بھی امکان پیدا ہوا ہے۔ مستقبل میں اعلٰی عدلیہ کے جج صاحبان میزان کو انصاف پر رکھتے ہوئے یقینی طور پر اس بات کو بھی مدنظر رکھیں گے کہ ملک کے عوام قانون کی عملداری میں پوری طرح ان کے پشتیبان ہیں۔

ب تک ججوں اور اعلٰی عدلیہ کو حاکم وقت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر انصاف سے مایوس رہے سترہ کروڑ عوام کی بلند امیدوں کا مرکز یہی جج ہوں گے۔ بلوچستان میں وسائل پر اپنا جائز حق مانگنے والا اگر ان ججوں کی جانب دیکھے گا تو لاپتہ ہوجانے والوں کے ورثاء کی نظریں بھی انہی ججوں پر ہوں گی۔

اس بحالی سے ایک فوری فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مستقبل میں انصاف کی لاش سے گزر کر گاڑیوں پر جھنڈے لہرانے میں کوئی عار محسوس نہ کرنے والے عدل کے ایسے تاجر کہ اب تک جن کی پاکستان میں کمی محسوس نہ ہوتی تھی، شاید اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پائیں۔ اس جنس کی عدم دستیابی کا نتیجہ لازماً ایک زیادہ بااعتماد اور آزاد عدلیہ کی شکل میں ہی نکلے گا۔

جسٹس افتخار چودھری کے دوبارہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے سے پاکستان کے حکمرانوں کواگر ایک طرف قانون کے سامنے سر جھکانے کی عادت پڑ سکتی ہے تو دوسری جانب سیاستدانوں کو بھی یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ سیاست میں قانون کی پاسداری اور سر بلندی کامیابی کی جانب بھی لے جا سکتی ہے۔

یہی بحالی پاکستان میں عدلیہ کے بطور ادارہ جڑ پکڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے کہ آج کے بعد عدلیہ شاید صرف عدلیہ کے طور پر دیکھی جاسکے ناکہ پی سی او عدالتوں، فوجی آمر کی عدالتوں، جمہوری آمر کی عدالتوں، پیپلز پارٹی کی عدلیہ، مسلم لیگ کی عدلیہ وغیرہ وغیرہ کے مصداق۔ اسی طرح شاید جج حضرات بھی خود کو صرف جج سمجھیں ناکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جی ایچ کیو اور ایم کیو ایم وغیرہ کے۔لیکن اس بحالی کے ساتھ ہی جسٹس افتخار چودھری اور ان کا ساتھ نہ چھوڑنے والے انتہائی بہادر اور قابل قدر ججوں کی بڑی ہی غیرمعمولی آزمائش بھی شروع ہوگئی ہے۔

اب تک ججوں اور اعلٰی عدلیہ کو حاکم وقت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر انصاف سے مایوس رہے سترہ کروڑ عوام کی بلند امیدوں کا مرکز یہی جج ہوں گے۔ بلوچستان میں وسائل پر اپنا جائز حق مانگنے والا اگر ان ججوں کی جانب دیکھے گا تو لاپتہ ہوجانے والوں کے ورثاء کی نظریں بھی انہی ججوں پر ہوں گی۔ کراچی میں بارہ مئی دوہزار سات کو مارے جانے والے اپنے لہو کا حساب اگر ان ججوں سے مانگیں گے تو اوکاڑہ کے دوردراز کھیتوں میں کئی عشروں تک ہل کی انی سے زمین کا سینہ چیر کر بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے والے کاشتکار بھی اپنی زمین بندوق کے زور پر چھینے جانے کا ازالہ انہی ججوں کے ہاتھوں چاہیں گے۔

جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اصل فائدہ پاکستانی سماج کو ہونا ہے جس کو اس تاریخی کامیابی سے یہ حوصلہ ملا ہے کہ عوام کی طاقت ملک کی تقدیر کا اہم ترین فیصلہ کرا سکتی ہے۔ آج کے بعد حاکم وقت آئین اور قانون کو موم کی ناک بنانے سے پہلے سو بار ضرور سوچیں گے کیونکہ اب آئین اور قانون کی عمل داری کی ضمانت عبوری آئینی احکامات ، آرڈیننس، ایک سو چوالیس اور امتناعی احکامات اور ریاستی طاقت نہیں، بلکہ سترہ کروڑ بااعتماد لوگوں کی شکل میں ملے گی۔

یہی نہیں، اس بحالی کے بعد انتہائی غالب امکان یہی ہے کہ نہ صرف ایسے مقدمات اور ان مقدمات کے فریق ان کے سامنے ہوں گے جو کل تک انہی ججوں پر سب و شتم کرتے رہے۔ اور تو اور ممکنہ طور پر جنرل مشرف پر غداری، آئین شکنی اور بغاوت کے مقدمات بھی انہی ججوں کے سامنے آئیں گے۔ اب تک ثابت قدم رہنے والے اور بطور جج اپنا وقار قائم رکھنے والے منصفین کو میزان اپنے ہاتھوں میں دوبارہ اٹھانے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیا یہ بھاری پتھر وہ اٹھا بھی سکیں گے۔

لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اصل فائدہ پاکستانی سماج کو ہونا ہے جس کو اس تاریخی کامیابی سے یہ حوصلہ ملا ہے کہ عوام کی طاقت ملک کی تقدیر کا اہم ترین فیصلہ کرا سکتی ہے۔ آج کے بعد حاکم وقت آئین اور قانون کو موم کی ناک بنانے سے پہلے سو بار ضرور سوچیں گے کیونکہ اب آئین اور قانون کی عمل داری کی ضمانت عبوری آئینی احکامات ، آرڈیننس، ایک سو چوالیس اور امتناعی احکامات اور ریاستی طاقت نہیں، بلکہ سترہ کروڑ بااعتماد لوگوں کی شکل میں ملے گی۔

اور سب سے بڑھ کر آئندہ کوئی بھی فوجی طالع آزما بندوق کے زور پر اس ملک و قوم کی قسمت سے کھیلنے سے پہلے کم سے کم سو بار تو ضرور سوچے گا۔ اب یہ توقع کرنا بلاشبہ عجب نہیں ہے کہ ضیاءالحقوں اور پرویز مشرفوں کا ذکر آئندہ صرف سیاہ الفاظ میں تاریخ کے صفحات میں ہی ملے گا۔

قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے اگر نو مارچ دو ہزار سات قرارداد پاکستان کے برابر تھا تو سولہ مارچ دو ہزار نو کی تاریخ صبحِ آزادی سے کم نہیں ہے

جسٹس کی بحالی پر خوشیاں اور ریلیاں

جسٹس کی بحالی پر خوشیاں اور ریلیاں

خوشیاں

اعلان کے بعد وکلاء معزول چیف جسٹس کے گھر جمع ہونا شروع ہوگئے

وزیراعظم سید یوسف رضا گیلانی کی جانب سے سپریم کورٹ کے معزول چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی بحالی کے اعلان کے بعد ملک بھر میں خوشیاں منائی جا رہی ہیں۔

ہمارے نامہ نگار اعجاز مہر نے اسلام آباد سے بتایا کہ وزیراعظم کے اعلان کے بعد وکلاء معزول چیف جسٹس کے گھر جمع ہونا شروع ہوگئے اور سکیورٹی کی پرواہ کیے بناء چیف جسٹس کے گھر کے صحن میں داخل ہوکر نعرے لگائے۔

چیف جسٹس کے گھر کے باہر ذرائع ابلاغ کے نمائندوں، سول سوسائٹی، وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکن کافی تعداد میں چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی جھلک دیکھنے کے لیے بیتاب تھی۔ ادھر تحریک انصاف، مسلم لیگ (ن) اور جماعت اسلامی کےکارکنوں نے اسلام آباد میں علیحدہ علیحدہ جلوس نکالے اور خوشی کا اظہار کیا۔ جماعت اسلامی کے درجنوں کارکن آبپارہ چوک پر جمع ہوئے جہاں قاضی حسین احمد نے ان سے خطاب کیا اور قوم اور اپنے کارکنوں کو مبارکباد پیش کی۔ مسلم لیگ (ن) کے اقبال ظفر جھگڑا کی سربراہی میں دو درجن گاڑیوں کا قافلا شہر میں اپنی جماعت کے پرچم لہراتے ہوئے گھومتا رہا۔

اسلام آباد اور راولپنڈی میں عام تعطیل کی وجہ سے بازار بند ہیں اور چھوٹےچھوٹے جلوس نکالے جا رہے ہیں۔

کراچی سے ہمارے نامہ نگار ریاض سہیل نے بتایا کہ وزیراعظم کے حکم پر کراچی بار کے صدر محمد علی عباسی اور جنرل سیکریٹری نعیم قریشی سمیت پندرہ وکلاء کو سینٹرل جیل سے رہا کردیا گیا ہے۔ وکلاء نے جلوس کے ساتھ ان کا استقبال کیا۔سندھ ہائی کورٹ بار میں جنرل باڈی اجلاس منعقد کیا گیا جس میں ججز کی بحالی پر خوش کا اظہار کیا گیا اور جدوجہد جاری رکھنے کا عزم دہرایا گیا۔

یہ جمہوری اقدار کی فتح ہے اور عوام کی جدوجہد کا ثمر ہے اور اس کی سب کو حفاظت کرنی چاہیے۔ عدلیہ کو موقع دینا چاہیے تاکہ وہ صحیح طریقے سے انصاف کرنے کی جو کوشش کر رہی ہے اس میں کامیاب ہو۔

جسٹس مشیر عالم

اجلاس سے ہائی کورٹ بار کےصدر رشید رضوی نے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہیں اب نوٹیفکیشن کا انتظار ہے کہ اس میں کیا زبان استعمال کی جاتی ہے اور اس کا باریک بینی سے جائزہ لینا ہوگا۔ ان کا کہنا تھا کہ گزشتہ ایک سال میں پی سی او اور ججز کی تقرری کے ذریعے عدلیہ کو آلودہ کیا گیا ہے اس لیے وکلاء مکمل طور پر خوش نہیں ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب تک یہ آلودگی ختم نہیں ہوتی سفارشی ججز واپس نہیں جاتے ہیں وکلاء کی جدوجہد جاری رہے گی۔

رشید رضوی کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس یا عدلیہ کی بحالی سے عدلیہ آزاد نہیں ہوگی۔ گزشتہ ساٹھ برسوں سے اس میں اتنے ڈینٹ لگائے گئے ہیں جب تک وہ صحیح نہیں ہوتے اور قبلہ درست نہیں کیا جائے ایک دو واقعات سے عدلیہ آزاد نہیں ہوگی۔

دوسری جانب وزیراعظم کے حکم کے تحت سندھ ہائی کورٹ کے دو معزول جسٹس مشیر عالم اور جسٹس مقبول باقر بحال ہوگئے ہیں اور دونوں نے پیر کی صبح ہائی کورٹ بار کا دورہ کیا۔ اس موقعے پر ان پر پھول نچھاور کیے گئے اور نعرے لگائے گئے۔بحال ہونے والے جج صاحبان کا کہنا ہے کہ وہ عوام کی امیدوں پر پورا اتریں گے۔ جسٹس مقبول باقر کا کہنا تھا کہ حق اور سچ کی کامیابی پر جو جذبات ہونے چاہیئیں آج ان کے بھی وہ جذبات ہیں اور اب آئین اور قانون کا دور دورہ ہوگا اور اسی حساب سے معاملات سلجھیں گے۔

جسٹس مشیر عالم کا کہنا تھا کہ یہ جمہوری اقدار کی فتح ہے اور عوام کی جدوجہد کا ثمر ہے اور اس کی سب کو حفاظت کرنی چاہئیے۔ ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کو موقعہ دینا چاہیئے تاکہ وہ صحیح طریقے سے انصاف کرنے کی جو کوشش کر رہی ہے اس میں کامیاب ہو۔ ان کے مطابق جمہوری حکومت کی تائید کرنی چاہیئے۔ آزاد عدلیہ کی جو بنیاد رکھی گئی ہے اس برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے۔

درین اثنا جماعت اسلامی،لیبر پارٹی اور پاسبان کی جانب سے مزار قائد سے کراچی سٹی کورٹس تک ریلی نکالی گئی۔

جسٹس مشیر

’آزاد عدلیہ کی جو بنیاد رکھی گئی ہے اس برقرار رکھنے کی کوشش کریں گے‘

معزول ججوں کی بحالی پر پنجاب کے دارالحکومت لاہور کی ضلعی بار ایسوسی ایشن اور ہائی کورٹ بار میں سوموار کو جشن جیسی صورت حال ہی رہی۔

نامہ نگار عباد الحق کے مطابق وکیلوں نے بار ایسوسی ایشن میں ایک دوسرے کو مبارک باد دی اور جسٹس افتخار محمد چودھری کے حق میں نعرے لگائے۔وکلا نے مٹھائیاں بانٹیں اور ڈھول کی تھاپ بھنگڑے ڈالے۔ وکیل لاہور ہائی کورٹ کے سینئر ترین جج جسٹس خواجہ محمد شریف کے گھر پہنچ گئے اور انہیں بحالی پر مبارک باد دی اور ان کے گلے میں پھولوں کے ہار ڈالے۔ اس موقع پر بحال ہونے والے جسٹس خواجہ شریف نے میڈیا سے مختصر بات کی اور کہا کہ عدلیہ پر اس فیصلہ کے مثبت اثرات مرتب ہونگے۔ملک کے دیگر شہروں کی طرح پشاور سمیت صوبہ سرحد کے مختلف علاقوں میں معزول ججوں کی بحالی کے اعلان پر وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے جشن منایا اور ڈھول کے تھاپ پر رقص کیا۔ پشاور سے رفعت اللہ اورکزئی نے بتایا ہے کہ صبح ہی سے وکلاء اور سیاسی جماعتوں کے کارکن ٹولیوں کی شکل میں پشاور ہائی کورٹ پہنچنا شروع ہوئے اور دن گیارہ بجے تک وہاں وکلاء کی ایک بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔

اس موقع پر وکلاء نے ' زندہ ہیں وکلاء زندہ ہیں، آئین کی خاطر زندہ ہیں‘ اور 'گو زرداری گو‘ کے نعرے بھی لگائے۔

اس دوران جماعت اسلامی اور تحریک انصاف کے صوبائی عہدیداران کی قیادت میں چھوٹے چھوٹے جلوس پشاور ہائی کورٹ پہنچتے رہے جہاں بعد ازاں ایک جلسہ بھی منعقد ہوا جس سے وکلاء اور سیاسی جاعتوں کے رہنماؤں نے مختصر خطاب کرتے ہوئے معزول ججوں کی بحالی کو عدلیہ اور انصاف کی فتح قرار دیا۔اس سے قبل پشار ہائی کورٹ کے احاطے میں صحافیوں سے مختصر گفتگو کرتے ہوئے پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس طارق پرویز خان نے کہا کہ آج حقیقی معنوں میں معزول ججوں کی بحالی سے عدلیہ آزاد ہوگئی اور وکلاء کی تحریک رنگ لائی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ وزیراعظیم یوسف رضا گیلانی کے اعلان کے بعد عدلیہ کی ساکھ بحال ہوجائے گی اور نظریہ ضرورت بھی ختم ہوجائے گا۔

گزشتہ ایک سال میں پی سی او اور ججز کی تقرری کے ذریعے عدلیہ کو آلودہ کیا گیا ہے اس لیے وکلاء مکمل طور پر خوش نہیں ہیں۔ جب تک یہ آلودگی ختم نہیں ہوتی سفارشی ججز واپس نہیں جاتے ہیں وکلاء کی جدوجہد جاری رہے گی۔

رشید رضوی

کوئٹہ میں جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کی بحالی کے بعد جشن کا سماں تھا جہاں مختلف سیاسی جماعتوں اور تنظیموں کی جانب سے جلوس نکالے گئے جلسے منعقد ہوئے اور ڈھول کی تھاپ پر رقص کیےگئے۔

نامہ نگار عزیز اللہ خان کے مطابق کوئٹہ میں جناح روڈ، شارع اقبال، قندھاری بازار، میزان چوک اور منان چوک پر مختلف سیاسی جماعتوں اور مزدور تظیموں نے جلوس نکالے۔ پشتونخواہ ملی عوامی پارٹی نے سب سے بڑی ریلی نکالی اور اس کے کارکن ڈھول کی تھاپ پر مختلف مقامات پر رقص کرتے رہے اور بعد میں میزان چوک پر قائدین نے جلسے سے خطاب کیا ہے۔ جماعت کے قائدین نے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری اور دیگر ججوں کی بحالی کے فیصلے کو سراہا ہے اور کہا ہے کہ اس فیصلے سے عدلیہ کا بول بالا ہوا ہے۔پنجاب میں سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری سمیت دیگر تمام معزول ججوں کی بحالی کے اعلان پر وکیلوں اور سیاسی جماعتوں کے کارکنوں نے جشن منایا اور میٹھایاں تقسیم کیں۔

Rally in lahore

جارحانہ ریلی سے لاہور والے حیران

علی سلمان

بی بی سی اردو ڈاٹ کام، لاہور

لاہور جی پی او چوک

شام کو اہلیان لاہور نے نواز شریف کو لانگ مارچ کا تحفہ دیکر رخصت کیا

مسلم لیگ نون کی جارحانہ ریلی نے خود لاہور والوں کو حیران کرکے رکھ دیا ہے۔نواز شریف جب پہلی رکاوٹ توڑ کرنکلے تو میں نے لوگوں کو دیوانہ وار ان کی جانب بھاگتے دیکھا۔ ماڈل ٹاؤن کی گلیاں نعرے مارتے کارکنوں کو ایسے اگلنے لگیں جیسے کلاشنکوف کی نالی سے گولیاں نکلتی ہیں۔ صرف دس منٹ کےاندر تعداد تین سو سے بڑھ کر تین ہزار ہوچکی تھی اور اگلے ایک گھنٹے کے اندر یہ دس ہزار سے تجاوز کرگئی۔

شام کو اہلیان لاہور نے نواز شریف کو لانگ مارچ کا تحفہ دیکر رخصت کیا تو اس وقت جلوس کی تعداد تیس ہزار سے زیادہ ہوچکی تھی اور اس سے کہیں زیادہ تعداد نواز شریف کو رخصت کرکے گھروں لوٹ گئی تھی۔

لاہور کے شہریوں نے گزشتہ بارہ چودہ برس کےدوران ایسی پرتصادم اتنی بڑی ریلی نہیں دیکھی تھی اور اس بار لانگ مارچ کچلنے کے لیے جتنے سخت اقدامات کیے گئے تھے اس کی مشرف کے فوجی دور میں بھی نظیر نہیں ملتی۔ ایسے حالات میں اتنی بڑی ریلی کو خود مسلم لیگی حلقے معجزہ قرار دے رہے ہیں۔

'میں نے قدم بڑھا دیا ہے اپنا وعدہ پورا کرو میرے ساتھ آؤ ہم اس ملک کی تقدیر بدل دیں گے۔ نواز شریف نے ’معجزاتی ریلی‘ نکالنے سے پہلے میڈیا کے ذریعے عوام سے جذباتی خطاب کیا تھا۔

مقامی میڈیا نے نواز شریف کی تقریر براہ راست دکھائی۔ مسلح پولیس میں محصور نواز شریف کی آٹھ منٹ کی جذباتی تقریر نے لاہور میں آگ سی لگا دی تھی۔ کارکن انتہائی جذباتی ہوگئے۔ میں نے سنا ایک کارکن کہہ رہا تھا کہ کسی نے نواز شریف کو انگلی بھی لگائی تو میں اس کےٹکڑے کردوں گا۔

نظربندی کے ریاستی پروانے ردی کے ٹکڑوں سے حقیر ہوگئے، پابندیوں کی خاردار تاریں موم بن کر پگھل گئیں اور رکاوٹوں کے کنٹینر آبی بخارات بن ہوا میں تحلیل ہوگئے۔ کالی وردی والے ظالم پولیس اہلکار ایسے نیک بنے کہ لاہور کی سڑکیں پنجاب پولیس زندہ باد کے عجیب نعروں سے گونجنے لگیں۔

پولیس پسپا ہونے کے مناظر براہ راست نشر ہوئے تو عوام میں رہا سہا خوف بھی ختم ہوگیا ہے اور یہ حیرت انگیزمنظر دیکھنے میں آیا کہ عورتیں اپنے بچے گودی میں اٹھائے جلوس میں شامل تھیں۔

بے بس ہونے کے بعد کوئی چارہ نہ دیکھ کر پولیس نے یہ افواہ پھیلا دی کہ نواز شریف اب گورنر ہاؤس پر حملہ کرنے والے ہیں۔ اس آڑ میں مظاہرین سے متصادم پولیس کی ساری فورس صرف اور صرف گورنر ہاؤس کے باہر لگا دی گئی۔ مال روڈ پر جماعت اسلامی کے تربیت یافتہ کارکنوں سے جان چھڑا کر پولیس فورس نے اس گورنر ہاؤس کے سامنے سکھ کا سانس لیاجس کے اندر سلمان تاثیر بیٹھے ان حالات کا جائزہ لے رہے تھے۔

پورے دن کے دوران نہ تو کسی ٹی وی چینل نے ان کی پراعتماد مسکراہٹ کی جھلک دکھائی اور نہ ہی منظور وٹو سمیت ان پانچ وفاقی وزیروں کی کوئی آواز سنائی دی جنہیں آصف زرداری نے لانگ مارچ کنٹرول کرنے کے لیے پنجاب بھیجا تھا۔

ہو سکتا ہے کہ سلمان تاثیر یہ سوچ رہے ہوں کہ وہ لانگ مارچ روکنے میں ناکامی کا صدر آصف زرداری کو کیا جواز پیش کریں گے؟کیونکہ ابھی تک وہ پیپلز پارٹی کی لیڈرشپ کو اس بات پر مطمئن نہیں کرسکے کہ انہوں نےگورنر راج کے بدلے بہتر گھنٹے کے اندر پنجاب میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم کردینے کا دعویٰ کس بل بوتے پر کیا تھا۔

نواز شریف نے کہا تھا کہ سلمان تاثیر بلو دی بیلٹ انہیں ہٹ کرتے ہیں آج نوازشریف کےحامیوں نے انہیں بھی جواب دیا ہے۔

لیگیوں نے تمام سرکاری پابندیوں کو اپنے پاؤں کی ٹھوکر پر رکھ کرایک طرح سے پنجاب میں گورنر کے راج کواوپرنیچے دائیں بائیں ہرطرف سے ہٹ کیا ہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ لاہور نوازشریف کا آبائی شہر اور مسلم لیگ نون کا گڑھ ہے لیکن شریف کے زیادہ تر حمایتی خاموش ووٹر ہیں۔ وہ بھی ایسے کہ اگر حالات پرامن ہوں تو تب ہی ووٹ ڈال آتے ہیں لیکن مسلم لیگیوں کا آج کا رویہ حیرت انگیز تھا۔ وہ مسلم لیگ کے شہری بابو نہیں بلکہ پی پی کے جیالے اور جمیعت کے لڑاکے لگ رہے تھے۔

پندرہ برس پہلے تحریک نجات کے دوران بھی نواز شریف نے لاہور میں ایک بڑا جلوس نکالا تھا لیکن اس زمانے میں پیپلز پارٹی کی حکومت نے ریاستی تشدد کے ایسے ہتھکنڈے استمعال نہیں کیے تھے جن کا مسلم لیگ نون آج کل سامنا تھا۔

اس میں کوئی شک نہیں لاہور بھٹو کے پرستار دیوانوں کا شہر بھی ہے لیکن صرف ایک برس پہلے جب مرحومہ بے نظیر بھٹو کو لانگ مارچ سے روکنے کے لیے مشرف حکومت نے ڈیفنس میں نظر بند کیا تھا تو ان کے جیالے اپنے بل بوتے پر انہیں ایک چوراہا بھی پار نہیں کرواسکے تھے۔

اس اتوار کو نواز شریف کے حامیوں نے وہ کام کردکھایا ہے جس کی ان سے کبھی توقع نہیں کی گئی۔

لانگ مارچ کی پیشرولاہور کی اس ’لیگی ریلی‘ نے پورے ملک کے سیاسی منظر نامے کو تبدیل کرکے رکھ دیا ہے۔

لانگ مارچ کراچی کوئٹہ پشاور ملتان سے ناکام ہوچکی تھی۔ وہ بلوچستان سے ایک انچ آگے نہیں بڑھ سکی اور سندھ کی سرحد اس کے لیے سات سمندر بن چکی تھی۔ملتان سے چھ سو کارکنوں کا جو جلوس نکلا تھا وہ چھ کلومیٹر بعد ہی کہیں گم ہوگیا۔

ریاستی تشدد نے تحریک کےحامیوں کے چہروں میں مایوسی کے بادل لہرا دیئے تھے لیکن اہل لاہور نے امیدوں کے ایسے دیے روشن کردیئے ہیں جن میں سورج کی سی تپش دینے کے صلاحیت موجودہے۔

Sunday, March 8, 2009