Wednesday, March 18, 2009

ایک سو افتخار چوہدری چاہییں!

وسعت اللہ خان




عدلیہ کی بحالی کے بعد اب عدالتی نظام کو ٹھیک کرنے کے لیے بھی جدوجہد ضوروی ہے

ٹراسپیرنسی انٹرنیشنل کے مطابق پاکستان کے پچپن فیصد شہریوں کا خیال ہے کہ یہاں کا عدالتی نظام کرپٹ ہونے کے سبب انصاف کی وسیع تر فراہمی میں ناکام ہے۔کسی بھی درجے کی عدالت کے روبرو جانے والے سائلوں میں سے چھیانوے فیصد کو پولیس یا عدالتی اہلکاروں یا وکلا کے ہاتھوں کم از کم ایک مرتبہ کرپشن کا سامنا ضرور کرنا پڑتا ہے۔

ٹرانسپیرنسی انٹرنیشنل کے مذکورہ جائزے میں ایک عام پاکستانی کے لیے اچنبھے کی کوئی بات نہیں ہے۔عدالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیاں نہ صرف فرسودہ بلکہ انتہائی کمزور ہوچکی ہیں۔

اس زنجیر میں پہلی بنیادی کڑی پولیس ہے۔اگرچہ موجودہ پولیس اٹھارہ سو اکسٹھ کے انڈین پولیس ایکٹ کے بجائے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر کے تحت کام کر رہی ہے۔لیکن اسکی کارکردگی کی نگرانی کے لیے دو ہزار دو کے پولیس آرڈر میں جو غیر جانبدارانہ ڈھانچہ تجویز کیا گیا تھا وہ نفاذ سے پہلے ہی اتنا کمزور کردیا گیا کہ پولیس حسبِ معمول پہلے کی طرح بے خوف ہوگئی۔ ہائی وے پولیس اور پولیس ایلیٹ فورس کی تنخواہوں میں تو کسی حد تک اضافہ ہوا لیکن بیشتر پولیس کے اوقاتِ کار اور تنخواہوں میں کوئی خاص فرق نہیں آیا۔حتی کہ ایک عام پولیس والے کو پک اینڈ ڈراپ کی سہولتیں تک فراہم نہیں کی گئیں۔ پولیس ریکارڈ کو کمپوٹرائزڈ کرنے کا منصوبہ بنایا گیا ۔یہ خوشخبری بھی سنائی گئی کہ کوئی بھی شہری بذریعہ انٹرنیٹ رورٹ درج کروا سکتا ہے۔ لیکن آج بھی ننانوے فیصد تھانے کاغذ ، قلم اور کچی و پکی رپورٹ کے اصول پر کام کر رہے ہیں۔ تھانوں کی تعداد میں ضرور اضافہ کیا گیا لیکن عمارتیں نہیں بنائی گئیں۔ چنانچہ بیشتر نئے تھانے قبضے کی جگہوں پر کام کر رہے ہیں۔
پولیس

دالتی نظام کی زنجیر کی تین بنیادی کڑیوں میں پولیس پہلی کڑی ہے

پولیس کی تقرریوں اور تبادلوں کے لیے پیشہ ورانہ غیرجانبدار طریقِ کار اپنانے کے بجائے پولیس والوں کی ترقی و تنزلی پہلے کی طرح حکومتی عمل داروں ، سیاستدانوں اور بااثر عمائدین کی آبرو سے بندھی ہوئی ہیں۔ ایک تہائی پولیس وی آئی پی پروٹیکشن کے لیے استعمال ہوتی ہے۔کہیں یہ پروٹیکشن ضروری ہوتی ہے لیکن اکثر حکومتی عملدار اس سہولت کو اپنا سٹیٹس سِمبل ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ان حالات میں پولیس کی پیشہ ورانہ صلاحیتیں بڑھانے اور مناسب تربیت کی بات کرنا وقت ضائع کرنے کے مترادف ہے۔اس ماحول میں جو بھی پولیس فورس کام کرے گی اسکی وفاداری اپنے کام ، اختیارات کے درست استعمال اور ریاستی و عوامی مفاد کے بجائے طاقتور کے مفاد سے ہی جڑ سکتی ہے۔

اس کا نتیجہ ماورائے عدالت پولیس مقابلوں، دورانِ حراست قیدیوں کی ہلاکتوں ، نجی خفیہ جیل خانوں، سائل پر دباؤ، ایف آئی آر میں اصل حقائق چھپان، کمزور یا تبدیل کرن، اصل گواہوں کی حوصلہ شکنی اور جعلی گواہوں کی حوصلہ افزائی کے رحجہان اور کیس کی سنگینی کے حساب سے رشوت کی شکل میں سب کے سامنے ہے۔

انصاف کی زنجیر کی دوسری کڑی تفتیشی عمل ہے۔اگرچہ کاغذی طور پر پولیس کی انویسٹی گیشن برانچ کرائم برانچ سے الگ ہے لیکن تفتیش کار جدید تحقیقی مہارت اور مطلوبہ وسائیل سے پہلے کی طرح نابلد و محروم ہیں۔ آج بھی مکہ ، لات ، چتھرول ، الٹا لٹکانا اور تیز روشنی میں ملزموں کو کھڑا رکھنا تفتیشی افسران کے محبوب طریقے ہیں۔ پولیس جائے وقوعہ سے اہم مادی شواہد اکھٹا کرنے ، جرم کی نوعیت اور ملزم کی نفسیات کی چھان بین سے زیادہ ملزم کے سماجی مقام اور بیانات سے دلچسپی رکھتی ہے۔گواہوں کو پیش کرنے کا بار بھی ملزم کو اٹھانا پڑتا ہے۔

پاکستان کی سولہ کروڑ آبادی کے لیے کراچی اور لاہور میں دو فرسودہ فورینزک لیبارٹریز ہیں۔جبکہ ڈی این اے ٹیسٹنگ کے لیے واحد لیبارٹری اسلام آباد میں تین برس پہلے چین کی مدد سے قائم کی گئی ہے۔ ان حالات میں کتنی اچھی تفتیش ہوسکتی ہے اسکا اندازہ لگانے کے لیے نوبل انعام یافتہ ہونا ضروری نہیں ہے۔

اور پھر یہ سب کچھ چالان اور قانونی دستاویزات کی صورت میں انصاف کی تیسری کڑی یعنی عدالت کے روبرو پیش ہوتا ہے۔سائیل کے لیے سب سے پہلا اور اہم کام کسی ایسے وکیل کی تلاش ہوتی ہے جو نہ صرف اپنے کام میں ماہر ہو بلکہ خدا ترس بھی ہو۔نوے فیصد وکلا سائیل کو مجبور نہیں بلکہ نوٹ چھاپنے کی مشین سمجھتے ہیں۔وہ سائیل کو اس کے مقدمے کی نوعیت اور کمزوریوں یا خامیوں کے بارے میں پیشہ ورانہ مشورہ دینے یا رہنمائی کرنے کے بجائے جھوٹے دلاسے دیتے ہیں۔انکی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو بلکہ جتنا التوا میں جاسکے معاشی طور پر اتنا ہی اچھا ہے۔

وکیل اور جج کے درمیان ایک اور کردار پیش کار کا ہوتا ہے جس کا کام سماعت کی تاریخ آگے پیچھے کروانا ہوتا ہے۔ وہ فائیلوں کے انبار کو اوپر نیچے کرنے پر قادر ہوتا ہے۔اس کا دارومدار اس پر ہے کہ انصاف کا متلاشی سائیل اسے کتنا خوش رکھ سکتا ہے۔ بصورتِ دیگر سائیل صرف شنوائی کی تاریخ لینے کے لیے جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں۔ اور جیل میں بند قیدی پورا پورا دن عدالت کے احاطے میں صرف یہ سننے کے لیے زنجیر سے بندھے بیٹھے رہتے ہیں کہ اب انکی شنوائی اگلے مہینے کی فلاں تاریخ پر ہوگی۔
وکیل

بیشتر وکلیلوں کی کوشش ہوتی ہے کہ مقدمہ کا فیصلہ جلد از جلد نہ ہو

پاکستان کی اٹھانوے فیصد آبادی انگریزی سے نابلد ہے۔لیکن عدالتی زبان انگریزی ہے۔چنانچہ سائیل کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ کس کاغذ پر کیا لکھا ہے اور وہ اس پر کیوں انگوٹھا لگا رہا ہے۔اگر سائیل ان کاغذوں کو جاننے کے لیے حجت کرے تو وکیل اسے یہی کہتا ہے کہ ’اللہ خیر کرے گا،تم فکر کیوں کرتے ہو۔میں ہوں نا۔‘

جہاں تک ججوں کا معاملہ ہے تو انکی تنخواہیں اور مراعات انہی کے ہم منصب بیورو کریٹس اور فوجی افسران کے مقابلے میں نہائت قلیل ہوتی ہیں۔ اگرچہ ان میں سے بہت سوں کی کوشش ہوتی ہے کہ اپنی ذمہ داریاں مادی مشکلات کے باوجود ایمانداری سے نبھائیں۔لیکن وہ بھی انسان ہیں۔اور سیاسی دباؤ ، سفارش اور مالی ترغیب تو اچھے اچھوں کو ڈگمگانے کے لیے کافی ہوتی ہے۔بعض جج دھڑلے سے انصاف فروخت کرتے ہیں تو بعض کسی توسط سے اس میں شریک ہوتے ہیں۔ان کی تقرری و تنزلی کا دارومدار بھی انکے سیاسی رجہان ، تعلقات اور سماجی اثرو رسوخ پر ہوتا ہے۔چنانچہ ایسے ججوں کے پاس بارسوخ افراد کے مقدمات کا انتہائی رش ہوتا ہے۔یوں ایک عام اور بے یارو مددگار سائیل کی فائیل ہر پیشی کے ساتھ مزید دبتی چلی جاتی ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ پاکستان کی مختلف عدالتوں میں اس وقت تقریباً نو لاکھ مقدمات التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اس وقت عدلیہ کو جتنی افرادی قوت میسر ہے اور فیصلے کرنے کی جو رفتار ہے اسے دیکھتے ہوئے سال میں دو ماہ چھٹی کرنے والی عدلیہ کو یہ مقدمات نمٹانے کے لیے کم از کم پچاس برس درکار ہوں گے۔ مرے پر سو درے یہ کہ پورے ملک میں ایک نہیں بلکہ شریعت اور انگریزی قانون پر مشتمل دو عدالتی نظام جاری و ساری ہیں۔اور عدالتیں بھی ایک قسم کی نہیں بلکہ بھانت بھانت کی ہیں۔

کہنے کو کرپٹ ججوں کے کان کھینچنے کے لیے سپریم جوڈیشل کونسل قائم ہے۔جسے کوئی بھی شخص شکیت بھیج سکتا ہے۔لیکن سپریم جوڈیشل کونسل یہ حق محفوظ رکھتی ہے کہ جھوٹی اطلاع یا شہادت دینے والے کے خلاف تادیبی کارروائی کرسکے۔اگرچہ یہ شق بالکل جائز اور مناسب ہے۔لیکن ایسا بہت کم ہوتا ہے کہ کرپشن کرنے والا اپنے پاؤں کے نشانات چھوڑ دے۔چنانچہ عام شہری کسی بھی جج کے بارے میں درست معلومات ہونے کے باوجود سپریم جوڈیشل کونسل سے شکایت کی ہمت نہیں کرتا۔اور یوں ایماندار ججوں کے شانہ بشانہ کرپٹ جج بھی زندگی کے مزے لوٹتے رہتے ہیں۔

یہ وہ حالات ہیں جن میں پاکستان کے مختلف علاقوں میں جرگہ سسٹم پہلے سے زیادہ مضبوطی کے ساتھ پھیل رہا ہے۔ بظاہر جرگہ سسٹم غیر قانونی ہے۔لیکن عدلیہ کی آزادی اور سستے انصاف کی فراہمی کے علمبردار کئی ارکانِ پارلیمان اور سرکاری افسر ان جرگوں میں دھڑلے سے بیٹھتے ہیں۔ اور چوری سے لے کر زندگی و موت تک کے فیصلے کرتے ہیں۔ عام آدمی جسے رسمی عدالتی نظام سے رجوع کرتے ہوئے ہول اٹھتا ہے۔بخوشی یا مجبوری میں ان جرگوں کے فیصلے تسلیم کرنے کو غنیمت سمجھتا ہے۔

اگرچہ افتخار محمد چوہدری اور انکے جرات مند ساتھیوں کی بحالی ایک خوش آئند قدم ہے۔لیکن تین کڑیوں پر مشتمل عدالتی ڈھانچے کو درست کرنے کے لیے ایک نہیں کم ازکم ایک سو افتخار چوہدری درکار ہیں۔

No comments: