Thursday, March 19, 2009

سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس



افتخار محمد چوہدری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں

حکومت کی طرف سےمعزول ججوں کی بحالی کے بعد اس وقت سپریم کورٹ میں ججوں کی تعداد پچیس ہوگئی ہے جبکہ فائنینس بِل میں حکمراں جماعت پاکستان پیپلزپارٹی اور اُس وقت کی اُن کی اتحادی اور موجوہ حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نواز نے مل کر سپریم کورٹ میں ججوں کی کل تعداد انتیس کی تھی۔ آئین میں ابھی تک سپریم کورٹ کے ججوں کی تعداد سترہ مقرر ہے۔

افتخار محمد چودھری اور سپریم کورٹ کے دیگر چار ججوں کی بحالی کے بعد اُن تمام ججوں کی اُمیدیں دم توڑ گئیں جو شاید سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور سینئیر جج بننے کے خواب دیکھ رہے تھے۔

سابق صدر جنرل ریٹائرڈ پرویز مشرف کی طرف سے تین نومبر سنہ دوہزار سات کو ایمرجنسی لگانے کے بعد سپریم کورٹ کے جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف اُٹھایا تھا اُن میں موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر، جسٹس نواز عباسی، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس ایم جاوید بُٹر اور جسٹس سعید اشہد شامل تھے۔

ان میں سے دو جج، نواز عباسی اور سعید اشہد، پہلے ہی ریٹائر ہو چکے ہیں جبکہ موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر اس ماہ کی اکیس تاریخ کو ریٹائر ہو رہے ہیں۔

معزول ججوں میں سے کچھ نے موجودہ حکومت کے برسر اقتدار آنے کے بعد دوبارہ حلف لے لیا تھا۔ ان میں جسٹس سردار رضا خان، جسٹس تصدق حسین جیلانی، میاں شاکراللہ جان اور جسٹس ناصر الملک شامل تھے جبکہ سید جمشید علی جنہوں نے گزشتہ برس دوبارہ حلف اُٹھایا تھا، حلف اُٹھانے کے ایک ماہ بعد ریٹائر ہوگئے تھے۔ سید جمشید علی کا کہنا تھا کہ وہ معزول جج کہلانا پسند نہیں کرتے۔

پی سی او کے تحت حلف اُٹھانے والے جسٹس نواز عباسی کے ریٹائر ہونے کے بعد جسٹس فقیر محمد کھوکھر موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد سب سے سینئیر جج تھے لیکن دوبارہ حلف اُٹھانے اور موجودہ حکومت کی طرف سے معزول ججوں کی بحالی کے بعد وہ سنیارٹی میں پانچویں نمبر پر چلے گئے ہیں۔

چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چوہدری اعجاز شامل ہیں


موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کے بعد جسٹس سردار رضا خان سپریم کورٹ کے سب سے سنیئیر جج تھے اور عبدالحمید ڈوگر کی ریٹائرمنٹ کے بعد اُن کا نام چیف جسٹس کے طور پر لیا جا رہا تھا تاہم معزول ججوں کے بحال ہونے کے بعد وہ سنیارٹی میں تیسرے نمبر پر چلے گئے ہیں۔افتخار محمد چودھری کے بعد جسٹس جاوید اقبال سنیارٹی میں دوسرے نمبر پر ہیں اور دونوں کا تعلق صوبہ بلوچستان سے ہے۔

واضح رہے کہ جسٹس جاوید اقبال نے تین نومبر سنہ دوہزار سات کے بعد پاکستان پریس کونسل کے چیئرمین کا عہدہ سنبھالا تھا تاہم یوسف رضا گیلانی کے وزیر اعظم کا عہدہ سنبھالنے کے بعد معزول ججوں کی نظر بندی کے خاتمے کے بعد جاوید اقبال اپنے عہدے سے مستعفی ہوگئے تھے۔

بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت دسمبر سنہ دوہزار تیرہ تک ہے اور اس سے پہلے متعدد سپریم کورٹ کے جج صاحبان ریٹائر ہو جائیں گے۔ ان میں جسٹس جاوید اقبال، سردار رضا خان، خلیل الرحمن رمدے، میاں شاکراللہ جان جاوید بُٹر، راجہ فیاض اور چودھری اعجاز شامل ہیں۔

جسٹس جاوید اقبال اکتیس جولائی سنہ دوہزار تیرہ ، جسٹس سردار رضا خان نو فروری سنہ دو ہزار دس، فقیر محمد کھوکھر پندرہ اپریل دو ہزار دس ، خلیل الرحمن رمدے بارہ جنوری دو ہزار دس اور میاں شاکراللہ جان سات اگست دو ہزار بارہ کو ریٹائر ہو جائیں گے جبکہ بحال ہونے والے چیف جسٹس افتخار محمد چودھری گیارہ دسمبر سنہ دو ہزار تیرہ کو ریٹائر ہوں گے۔

جسٹس تصدق حسین جیلانی اور جسٹس ناصر الملک کے امکانات ہیں کہ وہ افتخار محمد چودھری کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد سپریم کورٹ کے چیف جسٹس ہوں گے۔

عدالتِ اعظیٰ میں ججوں کی تعداد میں اضافے کے بعد سپریم کورٹ کی عمارت میں تعمیراتی کام جاری ہے اور ججوں کے مزید چیمبرز تعمیر کیے جا رہے ہیں۔

موجودہ چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی اکیس مارچ کو ریٹائرمنٹ کے بعد سپریم کورٹ میں سنیارٹی جس حساب سے ہوگی اس کے مطابق افتخار محمد چودھری چیف جسٹس، جسٹس جاوید اقبال، جسٹس سردار رضا خان، جسٹس خلیل الرحمن رمدے، جسٹس فقیر محمد کھوکھر، جسٹس میاں شاکراللہ جان، جسٹس ایم جاوید بُٹر، جسٹس تصدق حسیین جیلانی، جسٹس ناصرالملک، جسٹس راجہ فیاض احمد، جسٹس چودھری اعجاز احمد، جسٹس اعجاز الحسن، جسٹس محمد قائم جان، جسٹس موسی کے لغاری، جسٹس چودھری اعجاز یوسف، جسٹس محمد اختر شبیر، جسٹس ضیاء پرویز، جسٹس میاں حامد فاروق، جسٹس سید سخی حسین بخاری، جسٹس سید زوار حسین جعفری، جسٹس شیخ حاکم علی، جسٹس محمد فرخ محمود، جسٹس صبیح الدین احمد، جسٹس سرمد جلال عثمانی اور جسٹس سردار محمد اسلم کے نام آتے ہیں۔

واضح رہے کہ اٹارنی جنرل سردار لطیف کھوسہ کا کہنا ہے کہ افتخار محمد چودھری قومی مصالحتی آرڈینینس اور ملک میں ایمرجنسی کے نفاذ کا دوبارہ جائزہ لے سکتے ہیں تاہم اُن کا کہنا تھا کہ ہمیں ماضی کے مردے اُکھاڑنے کی بجائے مستقبل کو دیکھنا چاہیے۔

No comments: