Tuesday, March 17, 2009

انقلاب جو نہیں آیا


لاہور کے مناظر

’لگتا تھا لاہور میں کسی نے صور اسرافیل پھونک دی تھی‘

یہ سب کچھ مجھے انیس سو تراسی چھیاسی کے سندھ کی یاد دلاتا تھا جب ایم آر ڈی یا تحریک بحالی ء جمہوریت کی حمایت میں لوگ اٹھ کھڑے ہوۓ تھے لیکن وہاں لوگ پنجاب کیطرف دیکھتے تھے کہ وہاں لوگ اٹھے ہیں کہ نہیں۔ ’پنجاب جاگا کہ نہیں، بس جی پنجاب جب تک نہیں اٹھتا کچھ بھی نہیں ہوتا‘، لوگ کہتے۔

ان دنوں بلکل اسی طرح بینظیر بھٹو کراچـي میں اپنی رہائش گاہ ستر کلفٹن سے نکل کر جگہ جگہ پولیس اور رینجرز کی رکاوٹیں توڑتی ہوئي، آنسو گیس اور لاٹھی چارج کی بوچھاڑ میں کھلی جیپ میں لیاری جا پہنچی تھیں۔ لیاری سے لیکر کموں شہید تک لوگ ضیا ءالحق کی فوجی تانا شاہی کے خلاف میدان میں آ چکے تھے۔ لیکن پنجاب شاید ’مارشل لاء بھنگ‘ (ضياء الجق کے دنوں میں پنجاب میں کاشت ہونیوالے بھونی ہوئي بھنگ کو 'مارشل لاء' بھنگ کہا جاتا تھا) پی کر گہری ننید میں سویا ہوا تھا۔

اس سے بھی کئي سال قبل جب جب ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھوں بلوچستان حکومت کی برطرفی اور سرحد حکومت کے احتجاجی استعفے اور نیپ پر پابندی کے خلاف مزاحمت اٹھی تھی لیکن پنجاب پھر بھی خاموش تھا جس پر عوامی شاعر حبیب جالب نے کہا تھا:

’نہ وہ گفتگو سے نہ وہ شاعری سے جائے گا
عصا اٹھاؤ کہ یہ فرعون دیوانگي سے جائيگا
جگاؤ خطہء پنجاب کو جگاؤ بھی
اگر وہ جاگ اٹھے تو یہ نوکری سے جائيگا‘

لیکن اہل پنجاب نہیں اٹھنے تھے نہ اٹھے۔

بنگال کے بعد بلوچستان فوجی بوٹوں تلے روندا جانے لگا۔ حبیب جالب نے پھر کہا:

’اٹھو پنجاب کے لوگو بلوچستان جلتا ہے
بلوچستان جلتا ہے تو پاکستان جلتا ہے‘

پاکستان جلتا رہا لیکن پنجاب سے کتیا بھی نہیں بھونکی۔

لاہور کے مناظر

نواز شریف نے اس لانگ مارچ کو 'خاموش انقلاب' کا نام دیا تھا

ذوالفقار علی بھٹو کی نیم جمہوریت اور سیویلین ڈکیٹر شپ کی جگہ پھر ضیاء الحق کی سپر مارشل لاء نے لے لی۔ پاکستان میں بونا پارٹزم کے خلاف پنجاب سمیت پورا ملک بھڑک اٹھا۔ لیکن ایک صوبے سے دوسرے صوبے تو کیا ایک ضلع سے دوسرے ضلع تک ضیاء مخالف تحریکوں کی خبریں نہیں جاتی تھیں۔

انہی دنوں میں پنجابی شاعر ( شاید شفقت تنویر مرزا!) نے لکھا تھا:

’پنجابی تے نرے ڈھگے نیں
خورے اونہاں دی جاگ کدوں لہسی
بس صور اسرافیل پھوکن دی لوڑ اے
سارے جاگ پوسن‘

کل لگتا تھا لاہور میں کسی نے صور اسرافیل پھونک دی تھی اور یہ پاکستان کی تاریخ کے نہایت تجریدی مناظرتھے۔ پنجاب اٹھ کے آیاہوا تھا۔ نواز شریف ہزاروں لوگوں کا جلوس لیکر ’میں باغی ہوں‘ جیسی نظمیں کہتا ہوا راوی کا پل چڑھ چکا تھا۔ اسکی للکار اسلام آباد تھی جہاں سندھی ٹوپی پہنے صدر فوجی آمر کے اختیارات لیے ہوئے بیٹھا ہے۔

لوگ چاہے اسے کتنا قومی مصالحہ لگائيں لیکن بہت سے اب بھی سوچتے ہونگے کہ وہ پنجاب جو دو سندھی وزیر اعظموں کے قتل اور فوجی ہیلی کاپٹروں میں سندھ کے گوٹھوں کو جانیوالے انکے تابوتوں پر نہیں اٹھا، تب بھی نہیں جب ان میں سے ایک بینظیر بھٹو قتل بھی لیاقت باغ میں ہوئي۔ ’میں جن کے لیے مری وہ کاندھے لگانے بھی نہیں آئے‘، شاہ بھٹائي نے کہا تھا۔ بلوچستان میں معمر رہنما اکبر بگٹی کو قتل کیا گيا۔ سرحد روز غزہ کی پٹی بنتا ہے۔

’وہ جدوجہد جو ہم نے پانچ جولائي انیس سو ستتر میں شروع کی تھی وہ چودہ مارچ دو ہزار نو کو اپنے انجام کو پہنچی ہے۔ انقلاب شروع ہو چکا ہے۔‘ ضیاء الحق کے دنوں میں لاہور میں ریاستی تشدد و قید سہنے والے پاکستان پیپلزپارٹی کے ایک کارکن آغا صالح، جو اب نیویارک میں رہتے ہیں، کہہ رہے تھے۔

نواز شریف نے اس لانگ مارچ کو ’خاموش انقلاب‘ کا نام دیا۔ یہ لانگ مارچ اس لیے بھی صرف پنجابی مارچ نہیں تھا کہ اس لانگ مارچ میں کبھی ’منی ماؤ‘ کہلانے والے سندھی سیاسی لیڈر اور دانشور رسول بخش پلیجو نہ صرف اپنی عوامی تحریک کی سندھیانی تحریک کی کارکنوں کے ساتھ شریک ہونے آئے تھے بلکہ انکی سندھیانی تحریک کی کارکن سندھ میں سے پولیس اور رینجرز کے تشدد کی چناب پار کر کے پہنچی تھیں۔ بلوچستان سے پختون رہنما محمود خان اچکزئي اور انکی پارٹی بھی اس مارچ میں تھی۔

راوی کا پل، کالا شاہ کاکو، کاموکی، ایسا لگتا تھا کہ انقلاب چـل پڑا ہے۔ ایک لمبی رات جسکی صبح اسلام آباد کے ججز کالونی میں ہوئي۔ پاکستان میں سندھ جیسی ظالم پنجاب پولیس بھی ایسا لگتا تھا کہ اس شعر کی شکل بنی ہوئي تھی:

’میں حر ہوں اور لشکر یزید میں ہوں
میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا‘

یہ سنہ انیس سو نواسی کا تہران تھا یا اٹھاسی کا منیلا یا لاہور لگتا تھا یا تراسی چھیاسی کا سندھ۔ ’شریف برادران کی گالیاں سن کر نہ جانے کیوں مجھےانیس اسی کی دہائی یاد آ جاتی ہے۔ جامعہ پنجاب میں جمعیت کے ہاکی برداروں اور لاہور اور اسلام آباد میں شریف برادران کی پولیس اور ایجینسیوں کی ہاتھوں ماریں کھانے والا ایک صحافی دوست مجھ سے کہہ رہا تھا۔ لیکن نواز شریف اور چوہدری افتخار کو دیکھ کر یاد آتا ہے کبھی کبھی فرعون کے گھر میں موسی پیدا ہوجاتا ہے۔

’اس ملک میں امام مہدی تو آ سکتا ہے لیکن انقلاب نہیں آ سکتا‘ میں نے کئي برس پہلے یہ سوچ لیا تھا۔ لیکن کل انقلاب جی ٹی روڈ پر چل پڑا تھا۔ سوۓ ہوۓ پنجاب کے کانوں میں صور اسرافیل پھونکی جا چکی تھی۔

کل ہم ٹی وی پر اور فون کانفرنس پر اکٹھے ہوۓ تھے۔ ان میں کچھ پرانے جلاوطن اور کل کے انقلابی بھی تھے، کوئی ناروے سے تھا تو کوئي لاہور، کابل جرمنی سے ہوتا ہوا سان فراسسکو اور شکاگو سے تھا۔ کوئي اس وقت چلا تھا جب ابھی اسے پوری مونچھیں بھی نہیں آئي تھیں اور اب بڑہاپے کی دہلیز پر تھا۔ پھر ہم نے دیکھا کہ جی ٹی روڈ پر چڑھا ہوا انقلاب گوجرانوالہ پر آکر رک گيا ہے۔

’یہ انقلاب کبھی گوجر خان سے آگے نہیں بڑھتا۔ بس کبھی کالا شاہ کاکو تو کبھی کاموکی پر آکر رک جاتا ہے‘ ہم میں سے ایک نے کہا۔

’ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے‘، ایک اور گویا ہوا۔

No comments: