Saturday, May 16, 2009

Beghairat Board

Swat ke Muhajareen

کون جیتا کون ہارا


راہول گاندھی اور سونیا گاندھی

راہول اور سونیا دونوں اپنی اپنی نشست جیت گئے

بھارت کے عام انتخابات میں جہاں بہت سی معروف سیاسی شخصیات کامیاب ہوگئی ہیں وہیں کچھ لوگوں کو ناکامی کا منہ بھی دیکھنا پڑا ہے۔

عوام کی اس عدالت میں سر خرو ہونے والے بڑے بڑے ناموں میں کانگریس پارٹی کی سربراہ سونیا گاندھی، پارٹی کے جنرل سیکرٹری راہول گاندھی،بی جے پی کے سربراہ راج ناتھ سنگھ اور بی جے پی کی طرف سے وزارت عظمیٰ کے امیدوار لال کرشن اڈوانی شامل ہیں۔

راشٹریہ جنتا دل کے راہنما اور ریاست بہار کے سابق وزیر اعلیٰ لالو پرساد یادو نے دو سیٹوں سے انتخاب میں حصہ لیا تھا اور وہ ایک نشست پر انہیں عوام نے مسترد کر دیا ہے۔

ہارنے والوں میں کانگریس حکومت کے وزیر داخلہ پی چدمبرم بھی شامل ہیں جو تمل ناڈو سے الیکشن لڑ رہے تھے۔ کانگریس پارٹی کی رینوکا چودھری بھی کھمم سے ہار گئیں۔ وہ منموہن سنگھ کی حکومت میں بچوں اور خواتین کے امور کی وزیر تھیں۔

رام ولاس پاسوان اور لالو پرساد یادو

رام ولاس پاسوان اور لالو پرساد یادو

بی جے پی کی طرف سے انتخابات میں حصہ لینے والی مینکا گاندھی اور ان کے بیٹے ورون گاندھی بی جے پی کی ٹکٹ پر جیت گئے ہیں۔

ہارنے والوں میں ایک اور قابل ذکر نام لوک جن شکتی کے رہنما رام ولاس پاسوان ہیں جو بہار میں حاجی پور سے انتخاب لڑ رہے تھے۔ وہ اس سیٹ سے سات بار کامیاب ہو چکے ہیں اور ایک قابل ذکر بات یہ ہے کہ انہوں نے یہاں سے انیس سو نواسی میں چار لاکھ سے زیادہ ووٹوں کی برتری سے کامیابی حاصل کی تھی جو ایک ریکارڈ ہے۔

کامیابی حاصل کرنے والوں میں اداکارہ جے پردا ہیں جو رامپور سے سماجوادی پارٹی کی امیدوار تھیں۔ یو پی سے ہی مراد آباد کے حلقے سے انتخاب لڑنے والے سابق ٹیسٹ کرکٹر اظہرالدین بھی اپنی سیٹ جیت گئے ہیں۔ وہ کانگریس کے ٹکٹ پر میدان میں اترے تھے۔

مرحوم اداکار سنیل دت اور نرگس کی بیٹی پریا دت ممبئی سے کانگریس پارٹی کی ٹکٹ پر کامیاب ہوئی ہیں۔ بی جے پی کی ٹکٹ پر انتخاب میں حصہ لینے والے اداکار شتروگھن سنہا بھی جیت گئے ہیں۔

امرتسر سے سابق ٹیسٹ کرکٹر نوجوت سنگھ سدھو بی جے پی کے ٹکٹ پر کامیاب ہوئے ہیں۔

انصاف کا وقت آگیا: افتخار چوہدری


چیف جسٹس افتخار چوہدری

وکلا، ججز اور سول سوسائٹی کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے آگے آنا ہوگا: افتخار چوہدری

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جمعہ کے روز سے سندھ کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ وکلا برادری کو قائل کرنے نکلے ہیں کہ وہ قومی جوڈیشل پالیسی کے تحت انصاف کی بروقت اور یقینی فراہمی کو ممکن بنانے میں عدلیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کو انصاف سب کے لیے کا عنوان دینے کا مقصد بہت واضح ہے۔ ’قوم نے ساٹھ سال انتظار کیا ہے۔ لوگوں کی تکالیف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وقت، پیسہ اور توانائی خرچ کرنے کے بعد بھی انہیں انصاف نہیں ملتا ہے۔ قوم نے عدلیہ سے جو توقعات وابستہ کی ہیں، اس پر پورا اترنے کا وقت آگیا ہے۔ قوم کی نظریں ججوں اور وکلا پر لگی ہوئی ہیں۔

عام لوگ برملا وکلا کی بڑی تعداد کو ہی انصاف کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ اس کارروائی میں مذموم مقاصد رکھنے والے مؤکل حضرات کو کسی طرح بھی بہرحال بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس جمعہ کی شب حیدرآباد میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کی عہدیداران کی تقریب حلف برداری کی تقریب اور ہفتہ کو سانگھڑ بار کی اراکین سے خطاب کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے اپنے سامعین کو متنبہ کیا کہ یہ عدلیہ کے نظام کی بقاء کا سوال بھی ہے کیوں کہ ملک کے ایک علاقے (انہوں نے سوات کا نام نہیں لیا، نہ ہی نظام عدل کا ذکر کیا) میں انصاف کا جو نظام متعارف کرایا جارہا ہے اس میں سرے عام کوڑے مارے جارہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ ، وکلا اور سول سوسائٹی اس قسم کے مناظر دوبارہ دیکھنا کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں وکلا، ججز اور سول سوسائٹی کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے آگے آنا ہوگا۔

ملک کے ایک علاقے میں انصاف کا جو نظام متعارف کرایا جارہا ہے اس میں سرے عام کوڑے مارے جارہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ ، وکلا اور سول سوسائٹی اس قسم کے مناظر دوبارہ دیکھنا کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری

جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وکلا نے عدلیہ کی بحالی و آزادی کی تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور قوم کی قربانیوں کو ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ وکلا تحریک کے دوران 12 مئی اور 9 اپریل جیسے دل دہلا دینے والے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے جب وکلا کو زندہ جلایا گیا۔ وکلا کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان اب تک ابتلا اور آزمائش برداشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان قربانیوں کے بعد بھی اگر عدلیہ عوام کو انصاف فراہم نہ کرے تو قوم کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے گی اور یہ نظام بھی درست نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں، دین میں جہاد کی اہمیت سے سب آگاہ ہیں، یہ کام بھی ایک جہاد کے فریضہ کی طرح انجام دینا ہوگا۔

تقریب میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کی تقریر کچھ زیادہ ہی پسند کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب تین نومبر کو عدلیہ پر ایک اور شب خون مارا گیا اور ایک زبانی حکم کے زریعے پہلی بار اعلیٰ ججوں کو گھروں میں قید کردیا گیا، ان کے اہل خانہ کو بھی نکلنے کی آزادی نہیں تھی، جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا، اس پر ان حضرات نے قوم کو تو شرمندہ کیا ہی لیکن خود ان کا اپنا ضمیر بھی آج ملامت کرتا ہوگا، وہ اپنے اہل خانہ کی نظروں میں بھی گِر گئے ہوں گے۔

جس وقت وہ تقریر کر رہے تھے، اس وقت ان جج حضرات کی حالت دیدنی تھی۔ اسی طرح ان وکلا کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں جنہوں نے وکلا تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے حکومت کی ایما پر سرکاری ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے کہا کہ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہاری ہوئی اور زخم خوردہ عدلیہ کس طرح زندہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا ’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، جسے نہ ہو خود خیال اپنی حالت بدلنے کا‘

سترہ کروڑ گواچے لوگ'

'سترہ کروڑ گواچے لوگ'

حسن مجتییٰ 2009-05-16, 10:44

ہیومن رائٹس واچ نے صوبہ سرحد کی سوات وادی سمیت دیگر علاقوں میں طالبان اور فوج کی جنگ میں کچلے جانے والے لاکھوں لوگوں کی دربدر ہونے کو پاکستان کی تاریخ میں سنہ سینتالیس میں لوگوں کی دربدری کے بعد سنگین ترین انسانی صورتحال قرار دیا ہے۔

نیویارک میں دنیا کی مشہور ایمپائر اسٹیٹ بلڈنگ کی چونتیسویں منزل پر واقع ہیومن رائٹس واچ کو بارہ ہزار میل دور پاکستان میں بارہ لاکھ لوگوں کی اپنے وطن میں بے وطن بے خانماں بربادی نظر آگئی لیکن نیویارک شہر میں ہڈسن ندی کی لہروں پر 'اسکائی لائین' کروزنگ جہاز کے عرشے پر جام لنڈھاتے پاکستان کے وزیروں اور لمبی لمبی لیموزین میں چڑہ کر عوامی لیکن خانگی سیاسی فنکشنوں میں آنے والے پاکستانی حکمرانوں کو نظر کیوں نہیں آئی۔

اس لیے تو راجہ بازار راولپنڈی میں بھیک مانگتے ہوئے ایک نابینہ شخص نے کہا تھا 'اکھاں والیوں تسی بڑے۔۔۔۔۔۔'

صدر آصف زرداری اپنے امریکی دورے کی بے وقتی راگنیاں چھیڑ کر لندن پدھارگئے۔ جب وہ اقوام متحدہ میں سیکرٹری جنرل بانکی مون سے ملنے آئے تو ان کے ایک طرف قمر زمان کائرہ تھے تو دوسری طرف سلمان فاروقی۔

صدر آصف زرداری کا دورہ امریکہ اس قدر کامیاب رہا کہ اس پر ریپبلیکن اور ڈیموکریٹک پارٹیوں کے دو سینٹروں نے جل کر کہہ دیا کہ ان کو امریکہ کی پاکستان کو بھاری امداد میں جلدی کرنے پر تشویش ہے کیونکہ پاکستان میں کچھ لیڈر ایسے بھی اعلیٰ منصب نشیں ہیں جن کو 'مسٹر ٹین پرسینٹ' کہا جاتا رہا ہے۔ سینیٹ کی خارجہ کمیٹی میں ان دو سینٹروں نے اتنا بھی کہا کہ 'ہم نہیں چاہتے کہ پاکستان کو دی جانے والی امداد کا بڑا حصہ سوئٹزر لینڈ کے اکاؤنٹوں میں جاکر جمع ہو جائے'۔ اپنی مزدوری سے امریکہ میں ایک ٹیکس بھرنے والے کی حیثیت سے مجھے بھی اس پر تشویش ضرور ہے۔

یہ جو صدر زرداری کے وفد میں پانچ لاکھ ڈالر کا خرچہ ہوا ہے کون ادا کرے گا؟ میں نے ایک پاکستانی عملدار سے پوچھا 'پاکستانی ٹیکس دہندگان اور کون؟'
سترہ کروڑ لوگوں پر کتنے مسٹر ٹین پرسنیٹ ہیں؟ بارہ لاکھ لوگ دربدر بے گھر اور متاثر ہوئے ہیں۔ مجھے لگتا ہے لوگ سینتالیس سے ہی دربدر ہو رہے ہیں۔
'ست گواچـے لوک' فخر زمان کا ناول یاد ہے؟

ایک مس فٹ قسم کے پاکستانی سفارتکار کو میرے دوست نے کہا
'ہاں یار، اب تو لگتا ہے سترہ کروڑ گواچے لوگ ہیں'۔


کالعدم تنظیموں کے مدارس بند کیے جائیں

’کالعدم تنظیموں کے مدارس بند کیے جائیں‘

سکھوں سے جزیہ طلب کرنے کا پروپیگنڈہ غیرملکی چینلز نے کیا: بابر اعوان

قومی اسمبلی میں مالا کنڈ کی صورتحال پر پانچ روز تک جاری رہنے والی بحث جمعہ کے روز مکمل ہوگئی جس کے بعد اجلاس غیرمعینہ مدت کے لیئے ملتوی کر دیا گیا ہے۔

بحث کے دوران اراکین نے تمام مسائل کا حل پارلیمنٹ کے ذریعے نکالنے، فوجی آپریشن میں فوج کی مکمل حمایت کرنے، قومی اتحاد اور یکجہتی کے فروغ، نقل مکانی کرنے والوں کو مناسب سہولیات کی فراہمی، کالعدم تنظیموں کے مدارس بند کرنے، آئین توڑنے والوں کو قانون کے کٹہرے میں لانے اور شدت پسندی کے خاتمے کےلئے جمہوری اداروں کو مستحکم کرنے کی ضرورت پر زور دیا۔

جمعہ کو مالا کنڈ کی صورتحال پر بحث کی تحریک پر مزید بحث کی گئی۔

وفاقی وزیر پارلیمانی امور ڈاکٹر بابر اعوان نے بحث سمٹتے ہوئے کہا کہ پاکستان قائم رہنے کے لئے بنا ہے اس کو کوئی طاقت نہیں توڑ سکتی۔ ان کا کہنا تھا کہ سوات سے نقل مکانی کرنے والوں نے اپنا آج ہمارے کل پر قربان کردیا ہے ان کو کسی صورت تنہا نہیں چھوڑیں گے۔

وزیر کا مؤقف تھا کہ نقل مکانی کرنے والوں نے فوج کے آپریشن سے نہیں بلکہ شدت پسندوں کی دھمکیوں کے خوف سے نقل مکانی کی ہے اور حکومت نے سوات آپریشن پر قوم کو اعتماد میں لیا ہے۔ انہوں نے الزام عائد کیا کہ امن معاہدے کی خلاف ورزی شدت پسندوں نے کی تھی۔

ان کا مزید کہنا تھا کہ سکھوں سے جزیہ طلب کرنے کا پروپیگنڈہ غیرملکی چینلز نے کیا جس میں کوئی صداقت نہیں تھی۔ ’ہمیں پاکستان کو غیر مستحکم کرنے والی قوتوں کو بے نقاب کرنا ہوگا۔‘

جمعیت علماءاسلام (ف) کے امیر اور قومی کشمیر کمیٹی کے چیئرمین مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ پارلیمانی قرارداد اور قومی سلامتی بارے پارلیمانی کمیٹی کی سفارشات پر جب تک عملدرآمد نہیں کیا جاتا اس وقت تک آل پارٹیز کانفرنس کا کوئی نتیجہ نہیں نکلے گا، پارلیمنٹ کو اب بھی اختیارات مل جائیں تو صورتحال کا کوئی نہ کوئی حل نکل آئے گا۔

پارلیمنٹ ہاؤس میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے مختصر بات چیت میں انہوں نے کہا کہ سوات اور ملاکنڈ کے علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کا کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہو گا۔ بالآکر ہمیں بات چیت کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔

وفاقی وزیر پانی وبجلی راجہ پرویز اشرف نے صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سوات آپریشن کو عوام اور پارلیمنٹ کی حمایت حاصل ہے اور یہ کہ نقل مکانی کرنے والوں کے کیمپوں میں دو روز میں دس ہزار پنکھے پہنچا دیے جائیں گے۔

ملک میں لوڈشیڈنگ کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ آئندہ تین ماہ کے دوران بجلی کی طلب اور رسد میں فرق دو ہزار سے پچیس سو میگاواٹ تک پہنچ جائے گا۔ ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی کمی پوری کرنے کےلئے پانی کے ذخائر میں اضافے کی ضرورت ہے۔

اجلاس سوات اور مالاکنڈ کی صورتحال پر بحث کے لئے بلایا گیا تھا۔ اجلاس کے دوران حکومتی اور اپوزیشن کے 71 اراکین نے بحث میں حصہ لیا۔ وزیراعظم نے بحث کا آغاز کیا تھا۔ اجلاس گیارہ مئی کو شروع ہوا تھا۔

گوانتانامو ٹرائبیونل کی بحالی پر غم وغصہ

گوانتانامو ٹرائبیونل کی بحالی پر غم وغصہ

گوانتاموبے میں اس وقت بھی 240 قیدی ہیں

انسانی آزادیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے صدر براک اوباما کے اس فیصلے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے جس کے تحت گوانتاناموبے کے چند قیدیوں کے مقدمات کو ملٹری ٹرائبیونل میں دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

صدر براک اوباما نے اس سےقبل بش دور میں قائم کیے گئے اس عدالتی نظام کے بارے میں منفی جذبات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ نئے اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مشتبہ افراد کے مقدمات کی منصفانہ طور پر سماعت ہوسکے۔

جنوری 2009 میں صدرات کا منصب سنبھالتے ہی اوباما نے گوانتانامو جیل کو ایک سال کے اندر بند کرنے اور وہاں جاری ملٹری ٹرائیبونل کی کارروائی کو روکنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تطا کہ امریکہ اب ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے جں میں انسانی حقوس کا احترام کیا جائے گا۔

اوبامہ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں پہلے سے زیادہ بہتر قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ نئے قوانین کے تحت قیدیوں کے ان بیانات کو رد کردیا جائے گا جوقیدیوں پر سختی کرکے لیے گئے ہیں۔

کیوبا کی گوانتاموجیل میں اب بھی دو سو اکتالیس قیدی موجود ہیں۔ صدر اوباما نے گوانتاموبے جیل کو جنوری دو ہزار دس میں بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان فوجی ٹرائبیونل میں مقدمے کا سامنا کرنے والوں کو پہلے سے بہتر قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ بہتر قانوی حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے اہلکار نے بتایا کہ ان ٹرائبیونل میں تشدد کے ذریعے حاصل ہونےوالی شہادت کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی ’سنی سنائی‘ شہادتیں پیش ہو سکیں گی۔ وکیل منتخب کرنے کے عمل میں قیدیوں کی رائے کو پہلے سے زیادہ وزن دیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے جنہوں نے بش انتظامیہ کے دور میں گوانتاموبے کے قیدیوں کا ملٹری ٹرائیبونل میں ٹرائل کے خلاف مہم چلائی تھی، صدر اوباما کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین کے جوناتھن ہافٹز نے کہا کہ اوبامہ انتظامیہ کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔جوناتھن ہافٹز نے کہا کہ گوانتاموبے میں کوئی بھی قیدی ایسا نہیں ہے جس کا عام عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جا سکے۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کےدوران فوجی عدالتوں کی تشکیل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔البتہ صدر اوباما کے مشیروں کا کہنا ہے کہ صدر نے کبھی بھی ملٹری کمیشن کو سرے سے رد کرنے کاوعدہ نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے صدر اوباما نے بطور سینیٹر ایک ایسے قانون کی حمایت کی تھی جس کا مقصد ہی فوجی کمشن کا قیام تھا۔

واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار ایڈم بروکس کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ صدر اوباما نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد جیسے قیدیوں کے عام عدالتوں میں مقدمات سے بچنے کے لیے ملٹری ٹرائیبونل کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گوانتاموبے کے بیس قیدیوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلیں گے جبکہ باقی کچھ کو چھوڑ دیا جائےگا اور کچھ کو ان اپنے ممالک میں بھیج دیا جائے گا۔

گندم کی زیادہ پیداوار بھی مسئلہ

گندم کی زیادہ پیداوار بھی مسئلہ

اس برس پاکستان میں گندم غیرمعمولی زیادہ پیدا ہوئی

پاکستان میں گندم کی غیر معمولی زیادہ پیداوار نے سرکاری سطح پر خریداری کے مسائل کھڑے کر دیئے ہیں۔ کاشتکاروں کی ایک بڑی تعداد سرکاری خریداری مراکز کے باہر قطار در قطار کھڑی اس کی فروخت کی منتظر ہے جبکہ سرکاری گودام بھر چکے ہیں اور اب اطلاعات کے مطابق حکومت کو فنڈز کی قلت کا سامنا ہے۔

پاکستان میں اس برس گندم کی سرکاری قمیت تقریباً دوگنی کردی گئی تھی جس کی وجہ سے گندم کی غیر معمولی پیداوار ہوئی جو ملکی ضروریات سے زیادہ ہے۔ سندھ میں نسبتاً زیادہ کامیابی سے گندم خرید لی گئی جس کے بعد پنجاب میں گندم کی خریداری شروع ہوئی تو اس نے حکومت کے ہوش اڑا دیے ہیں۔

اپوزیشن جماعت مسلم لیگ قاف نے الزام لگایا ہے کہ گندم کی خریداری کی ناقص سرکاری پالیسی سے کسانوں کو نقصان ہورہا ہے۔

صوبائی وزیر خوراک ندیم کامران کے بقول گزشتہ برس صرف تیرہ لاکھ ٹن گندم خریدی گئی تھی اور اب تک حکومت چھتیس لاکھ ٹن گندم خرید چکی ہے۔ ان کے بقول گندم کی سرکاری خریداری کا یہ ایک ریکارڈ ہے اور ملکی ضروریات کے لیے کافی ذخیرہ ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے باوجود اس کی خریداری جاری ہے۔

حکومت پنجاب نے صوبےکے کاشتکاروں سے ساٹھ لاکھ ٹن گندم خریدنے کا اعلان کر رکھا ہے اور ابھی بھی کسانوں کی لمبی قطاریں تقریباً ہر خریداری مرکز پر نظر آتی ہے۔

مسلم لیگ قاف پنجاب کے صدر پرویز الہی نے اپنی پارٹی کے کسان ونگ کے اجلاس کے بعد ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے جی ٹی روڈ پرگندم خریداری کے مرکز کے باہر لگی ایک قطار کو اپنی گاڑی کے سپیڈو میٹر سےماپا تو وہ تین کلومیٹر لمبی نکلی۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ سرکاری اراکین قومی اور صوبائی اسمبلی کی سفارشی چٹوں پر گندم خریدی جارہی ہے۔

وزیراعلی پنجاب شہباز شریف مختلف اضلاع میں چھاپے مار کر خریداری مراکز کے تقریباً ایک سو اہلکاروں کو معطل کرچکے ہیں لیکن اپوزیشن کا کہنا ہے کہ اس سے کاشتکاروں کے مسائل حل نہیں ہوسکے۔

حکومت پنجاب نے زیادہ گندم سے نبٹنے کے لیے دس لاکھ ٹن گندم برآمد کرنے کا اعلان کیا ہے لیکن اپوزیشن کے راہنما چودھری پرویز الہی کا کہنا ہے کہ یہ اعلان بھی ایک دھوکا ہے۔ ان کے بقول اس وقت گندم کی عالمی قیمت سوا دو سو ڈالر فی ٹن ہے جبکہ پاکستان میں گندم کی قیمت تین سو پینسٹھ ڈالر ہے اس لیے اس کی برآمد کی بات کرنا پرویز الہی کے بقول ایک دھوکا ہے۔

مبصرین کاکہنا ہے کہ ماضی میں گندم کی کمی اور اب اس کی زیادتی حکومت کے لیے مسئلہ بنی ہوئی ہے۔

پناہ گزینوں کے لیے آٹا پنجاب بھیجے گا‘

’پناہ گزینوں کے لیے آٹا پنجاب بھیجے گا‘

بلوچستان اور پنجاب کے وزرائے اعلی نے مرادن میں کیمپوں کا رورہ کیا اور پناہ گزینو کے لیے امداد دی

وزیر اعلی پنجاب شہباز شریف نے سرحد حکومت کو پیشکش کی ہے کہ وہ سوات کے پناہ گزینوں کے لیے تندور لگائیں اور ان کے لیے آٹا پنجاب حکومت فراہم کرے گی۔ انہوں نے کہا کہ وزیر اعلی سرحد نے صرف اشارہ کرنا ہے کہ روزانہ کی کیا ضرورت ہے اور پنجاب سے گندم پسوا کر آٹا مسلسل سپلائی کیا جائے گا۔

یہ بات وزیر اعلی پنجاب نے صوبہ سرحد میں پناہ گزینوں کے کیمپوں کے دورے کے دوران وزیر اعلی سرحد سے گفتگو کرتے ہوئے کہی۔

شہباز شریف نے وزیر اعلی سرحد امیر حیدر خان ہوتی کو کہا کہ وہ ایک ایسی رابط کمیٹی بنا دیں جس میں پنجاب اور سرحد کے حکام شامل ہوں اور یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر بتائے کہ پناہ گزینوں کی کھانے پینے کی کیا ضروریات ہیں اور پنجاب حکومت اور پنجاب کے عوام وہ چیزیں فراہم کریں گے

وزیر اعلی پنجاب اس وقت پنجاب میں سستے روٹی کے تندوروں کی سکیم چلا رہے ہیں اور ان مخصوص سستے تندروں پر دو روپے کی روٹی فروخت کی جاتی ہے۔

شہباز شریف نے وزیر اعلی سرحد امیر حیدر خان ہوتی کو کہا کہ وہ ایک ایسی رابط کمیٹی بنا دیں جس میں پنجاب اور سرحد کے حکام شامل ہوں اور یہ کمیٹی روزانہ کی بنیاد پر بتائے کہ پناہ گزینوں کی کھانے پینے کی کیا ضروریات ہیں اور پنجاب حکومت اور پنجاب کے عوام وہ چیزیں فراہم کریں گے۔شہباز شریف کا کہنا تھا کہ پنجاب کے عوام سوات کے متاثرہ بھائیوں کو اشیائے خورد ونوش فراہم کرنے کے لیے بے تاب ہیں۔

پنجاب کے وزیر اعلی شہباز شریف اور بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی پناہ گزینوں کے لیے امداد لےکر جمعہ کے روز ایک ساتھ صوبہ سرحد پہنچے، رسالپور ائر بیس پر وزیر اعلی سرحد امیر حیدر ہوتی نے ان کا استقبال کی۔ اس موقع پر بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے پناہ گزینوں کے لیے چھ کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا۔

وزیراعلی پنجاب نے اشیائے خوردونوش سے بھرے ایک سو چھپن ٹرک صوبے سرحد کے حوالے کیے

وزیر اعلی پنجاب نے کہا کہ تین صوبوں کے وزرائے اعلی کی موجودگی اس بات کا ثبوت ہے کہ تمام صوبے پاکستان کی بقا کی خاطر اور دربدر ہونے والے پاکستانی بھائیوں کی مدد کے لیے متحد ہیں۔انہوں نے کہا کہ بلوچستان کی اپنے معاشی مسائل کے باوجود چھ کروڑ روپے امداد اس بات کا ثبوت ہے کہ وہ سرحد اور پاکستان کے عوام سے کس قدر محبت کرتے ہیں۔ وزیر اعلی پنجاب نے اعلان کیا کہ سرحد کے متاثرین کو پنجاب کے تعلیمی اداروں میں پناہ دی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ صوبے کے سکولوں اور کالجوں میں گرمیوں کی چھٹیاں ہونے والی ہیں اور انہوں نے وزیر اعلی سرحد کو کہا ہے کہ وہ پناہ گزینوں کی رجسٹریشن کر کے ان کو پنجاب بھجواتے جائیں جہاں انہیں تعلیمی اداروں میں رکھا جائے گا۔

بلوچستان کے وزیر اعلی نواب اسلم رئیسانی نے پناہ گزینوں کے لیے چھ کروڑ روپے کی امداد کا اعلان کیا

وزیراعلی پنجاب نے اشیائے خوردونوش سے بھرے ایک سو چھپن ٹرک صوبے سرحد کے حوالے کیے۔ شہباز شریف ایران کےتین روزہ دورے کے بعد لوٹے تھے لیکن لاہور جانے کی بجائے اسلام آباد سے براہ راست مردان میں پناہ گزینوں کے کیمپ پہنچے۔ وزیر اعلی شہباز شریف نے مزدور آباد تخت بائی مردان میں مہاجروں کے ایک کیمپ کا بھی دورہ کیا اور پناہ گزینوں سے ان کی مشکلات پوچھیں۔

Thursday, May 7, 2009

گولہ باری سے صوفی محمد کا ہلاک

گولہ باری سے صوفی محمد کا ہلاک

آپریشن کے دوران بھاری توپخانہ بھی استعمال کیا جا رہا ہے

صوبہ سرحد کے ملاکنڈ ڈویژن میں مقامی طالبان کے خلاف فوجی کارروائی جمعرات کو بھی جاری ہے اور اسی دوران تحریکِ نفاذِ شریعتِ محمدی کے سربراہ مولانا صوفی محمد کا ایک بیٹا اور تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں۔

دوسری طرف سوات میں سکیورٹی فورسز کی دو روزہ کارروائی کے بعد زمرد کی کانوں پر سے طالبان کے کنٹرول ختم ہو گیا ہے۔

مولانا صوفی محمد کے بیٹے ضیاء اللہ نے بی بی سی اردو سے بات کرتے ہوئے تصدیق کی کہ ان کے ایک بھائی تینتالیس سالہ کفایت اللہ بدھ اور جمعرات کی درمیانی شب ایک مارٹر حملے کا نشانہ بنے۔ ان کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ضلع لوئر دیر میں میدان کے علاقے دارو میں پیش آیا جہاں کفایت اللہ ایک گاؤں میں رہائش پذیر تھے۔ ضیاءاللہ کے مطابق اس حملے میں مولانا صوفی محمد کے داماد بھی زخمی ہوئے ہیں۔

چند ہفتے قبل بھی سکیورٹی فورسز نے میدان قمبڑ کے علاقے میں واقع مولانا صوفی محمد کے آبائی مکان کو نشانہ بنایا تھا جس سے مکان کو نقصان پہنچا تھا۔ سکیورٹی فورسز نے دعوی کیا تھا کہ مولانا صوفی محمد کے مکان سے ان پر حملہ ہوا تھا جس کے ردعمل میں یہ کارروائی کی گئی۔تاہم تحریکِ نفاذِ شرعتِ محمدی کے ترجمان نے سرکاری دعوے کی تردید کی تھی۔ اس حملے کے بعد مولانا صوفی اپنا آبائی علاقہ چھوڑ کر بٹ خیلہ منتقل ہو گئے تھے۔

کانجو اور آس پاس کے علاقوں میں طالبان نے جی ٹی روڈ پر چیک پوسٹیں قائم کی ہوئی ہیں جس سے لوگوں کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ مینگورہ میں ہر طرف لوگ سڑکوں پر خواتین اور بچوں کے ہمراہ کھڑے ہیں تاہم گاڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

عینی شاہدین

ادھر لوئر دیر کے علاقے چکدرہ میں مسلح طالبان نے لیوی ہیڈ کوارٹر پر بھاری ہتھیاروں سے حملہ کیا ہے جس میں تین سکیورٹی اہلکار ہلاک ہوئے ہیں جبکہ دس کو یرغمال بنا لیا گیا ہے۔ سرکاری ذرائع کے مطابق طالبان نے بدھ کی رات قلعہ کو چاروں اطراف سے گھیرے میں لے رکھا تھا کہ اس دوران دونوں طرف سے فائرنگ شروع ہوئی جس میں تین ایف سی اہلکار ہلاک ہوگئے۔ ذرائع کے مطابق طالبان نے لیوی کے دس اہلکاروں کو یرغمال بنانے کے بعد انہیں اپنے ساتھ کسی نامعلوم مقام کی طرف لے گئے ہیں۔ مقامی لوگوں کا کہنا ہے کہ طالبان نے جاتے وقت قلعے کو بھی بارودی مواد سے نشانہ بنایا جس سے عمارت کو شدید نقصان پہنچا ہے۔

ادھر شورش زدہ ضلع سوات میں حکام کا کہنا ہے کہ سکیورٹی فورسز نے دو دن کی لڑائی اور شیلنگ کے بعد طالبان کے زیر کنٹرول زمرد کی کانوں پر قبضہ کرنے کے بعد طالبان کو علاقے سے بے دخل کر دیا ہے۔ سوات کے ایک اعلٰی سرکاری اہلکار نے بی بی سی کو بتایا کہ مینگورہ کے نواح میں واقع زمرد کے کانوں پر قبضہ کے بعد سکیورٹی فورسز کے دستے وہاں داخل ہوگئے ہیں اور اردگرد کے علاقے کا کنٹرول سنبھال لیا ہے۔ مقامی ذرائع کے مطابق طالبان نے زمرد کی کانوں پر تقریباً پانچ ماہ قبل قبضہ کیا تھا۔

خیال رہے کہ بدھ کو بھی گن شپ ہیلی کاپٹروں اور بھاری توپ خانے سے زمرد کی کانوں پر بھرپور شیلنگ کی گئی تھی جس میں کئی عام شہری بھی ہلاک ہوگئے تھے۔ سوات میں گزشتہ تین روز کے دوران غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق مجموعی طور پر سینتیس عام شہری ہلاک ہوئے ہیں۔

جنگی ہیلی کاپٹروں نے طالبان ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے

دریں اثناء سوات میں جمعرات کی صبح سات سے لے کر بارہ بجے تک کرفیو میں نرمی کی گئی اور اس دوران ہزاروں افراد نےعلاقے سے نکلنے کی کوشش کی تاہم راستے بند ہونے کی وجہ سے نقل مکانی کرنے والے افراد کو شدید مشکلات کا سامنا ہے۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ کانجو اور آس پاس کے علاقوں میں طالبان نے جی ٹی روڈ پر چیک پوسٹیں قائم کی ہوئی ہیں جس سے لوگوں کو گزرنے کی اجازت نہیں دی جا رہی ہے۔ انہوں نے کہا کہ مینگورہ میں ہر طرف لوگ سڑکوں پر خواتین اور بچوں کے ہمراہ کھڑے ہیں تاہم گاڑیاں نہ ہونے کی وجہ سے انہیں مشکلات کا سامنا ہے۔

سوات میں کمشنر، ناظم، ڈی آئی جی، پولیس اور فرنٹیئر ریزرو پولیس کے دفاتر پر طالبان کا قبضہ بدستور برقرار ہے۔ ان سرکاری دفاتر پر طالبان نے منگل کی شام کو قبضہ کیا تھا۔ مقامی لوگوں کے مطابق مینگورہ شہر کا بڑا حصہ طالبان کے کنٹرول میں ہے اور انہوں نے شہر کی بڑی بڑی عمارتوں پر مورچے سنبھالے ہوئے ہیں۔ یہ بھی اطلاعات ہیں کہ فوج کے تازہ دستے مینگورہ پہنچ گئے ہیں جبکہ امن معاہدے کے بعد علاقے میں پہلی بار جیٹ طیاروں کو گشت کرتے ہوئے دیکھا گیا ہے۔

امتحانی سکینڈل: مستعفی ہونےکی ہدایت

امتحانی سکینڈل: مستعفی ہونےکی ہدایت

نواز شریف

حاجی پرویز کو پنجاب ہاؤس طلب کرکے اُنہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کے بارے میں کہا گیا

پاکستان مسلم لیگ نواز کے رکن قومی اسمبلی حاجی پرویز خان کے امتحانی سکینڈل میں ملوث ہونے پر پارٹی کے قائد میاں نواز شریف نے اُنہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کی ہدایت کردی ہے۔

بدھ کے روز یہ ہدایت انہوں نے جماعت کی طرف سے رکن قومی اسمبلی شاہد خاقان عباسی کی طرف سے دی جانے والی رپورٹ کی روشنی میں دی جس میں کمیٹی نے حاجی پرویز خان کو امتحانی سکینڈل میں ملوث قرار دیا تھا۔

واضح رہے کہ راولپنڈی پولیس نے انتیس اپریل کو ایک نوجوان بلال جاوید کو گرفتار کیا تھا جو حاجی پرویز کی جگہ امتحان دے رہا تھا بعدازاں معلوم ہوا کہ گرفتار ہونے والہ شخص حاجی پرویز کا رشتہ دار ہے۔

اگرچہ رکن قومی اسمبلی کی پارٹی کے ساتھ پچیس سال سے زائد کی وابستگی رہی ہے لیکن اس کے باوجود اصولوں پر سودے بازی نہیں ہوسکتی۔

نواز شریف

نواز شریف نے بدھ کے روز پنجاب ہاؤس میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ اگرچہ رکن قومی اسمبلی کی پارٹی کے ساتھ پچیس سال سے زائد کی وابستگی رہی ہے لیکن اس کے باوجود اصولوں پر سودے بازی نہیں ہوسکتی۔

انہوں نے کہا کہ حاجی پرویز کو پنجاب ہاؤس طلب کر کے اُنہیں کمیٹی کی رپورٹ کے بارے میں بتایا گیا اور اُنہیں قومی اسمبلی کی رکنیت سے مستعفی ہونے کو کہا گیا ہے۔

حاجی پرویز خان نے راولپنڈی کے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 55 میں ضمنی انتخِابات میں کامیابی حاصل کی تھی۔ یہ نشست مخدوم جاوید ہاشمی نے عام انتخابات میں تین حلقوں میں کامیابی کے بعد خالی کی تھی۔

میاں نواز شریف نے وزیر اعلٰی پنجاب میاں شہباز شریف سے کہا ہے کہ وہ محکمہ تعلیم کے اُن افراد کے خلاف سخت کارروائی کریں جنہوں نے اس حوالے سے حاجی پرویز کی معاونت کی تھی۔انہوں نے کہا کہ ملک میں آئین اور قانون کی بالادستی کے لیے ضروری ہے کہ ہر اُس شخص کا احتساب کیا جائے جو اپنے اختیارات کا ناجائز استعمال کرتا ہے۔

سابق چیف جسٹس عبدالحمید ڈوگر کی بیٹی فرح حمید ڈوگرکو اضافی نمبر دینے کے معاملے کا ذکر کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ قانون سب کے لیے برابر ہے اور اگر اُنہوں نے بھی بطور چیف جسٹس اپنے اختیارات سے تجاوز کیا ہے تو اُن کے خلاف بھی کارروائی ہونی چاہیے۔ تاہم انہوں نے اس بات پر زور نہیں دیا کہ سابق چیف جسٹس کو تعلیم کے بارے میں قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں طلب کیا جائے یا نہیں۔

بدھ کے روز ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں راولپنڈی کے تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر ریاض نے الزام عائد کیا ہے کہ گارڈن کالج کے امتحانی مرکز کے سپرنٹینڈینٹ نے رکن قومی اسمبلی حاجی پرویز کی حمایت کی تھی۔

میاں نواز شریف کا کہنا تھا کہ ملک میں مثبت اور تعمیری سیاست کو فروغ دینے کے لیے ضروری ہے کہ ملک میں آئین اور قانون کی حکمرانی ہو۔

بدھ کے روز ہی قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی کے اجلاس میں راولپنڈی کے تعلیمی بورڈ کے چیئرمین پروفیسر ریاض نے الزام عائد کیا کہ گارڈن کالج کے امتحانی مرکز کے سپرنٹینڈینٹ نے رکن قومی اسمبلی حاجی پرویز کی حمایت کی تھی ۔انہوں نے یہ بات حزب اختلاف کی جماعت پاکستان مسلم لیگ نون سے تعلق رکھنے والے رکن قومی اسمبلی عابد شیر علی کی سربراہی میں ہونے والے اجلاس میں کہی۔

رکن قومی اسمبلی کی جگہ مبینہ طور پر امتحانی پرچہ دینے والے بلال جاوید کو پولیس کے چھاپے کے بعد اسلحہ سمیت امتحانی مرکز سے گرفتار کیا تھا۔

حاجی پرویز خان پارلیمانی اراکین کے لیے گریجیویٹ ہونے کی شرط کے ختم کیے جانے بعد ضمنی انتخاب میں منتخب ہوئے تھے۔ تاہم وہ شائد انٹرمیڈیئٹ کی ڈگری احتیاطاً حاصل کرنا چاہ رہے تھے۔