Saturday, May 16, 2009

انصاف کا وقت آگیا: افتخار چوہدری


چیف جسٹس افتخار چوہدری

وکلا، ججز اور سول سوسائٹی کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے آگے آنا ہوگا: افتخار چوہدری

سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری جمعہ کے روز سے سندھ کے دورے پر ہیں۔ اس دورے کے دوران وہ وکلا برادری کو قائل کرنے نکلے ہیں کہ وہ قومی جوڈیشل پالیسی کے تحت انصاف کی بروقت اور یقینی فراہمی کو ممکن بنانے میں عدلیہ کے ساتھ بھرپور تعاون کریں۔

ان کا کہنا تھا کہ رواں سال کو انصاف سب کے لیے کا عنوان دینے کا مقصد بہت واضح ہے۔ ’قوم نے ساٹھ سال انتظار کیا ہے۔ لوگوں کی تکالیف کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ عوام کو انصاف کے حصول کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانی پڑتی ہیں‘۔ انہوں نے کہا کہ وقت، پیسہ اور توانائی خرچ کرنے کے بعد بھی انہیں انصاف نہیں ملتا ہے۔ قوم نے عدلیہ سے جو توقعات وابستہ کی ہیں، اس پر پورا اترنے کا وقت آگیا ہے۔ قوم کی نظریں ججوں اور وکلا پر لگی ہوئی ہیں۔

عام لوگ برملا وکلا کی بڑی تعداد کو ہی انصاف کے حصول میں تاخیر کا ذمہ دار تصور کرتے ہیں۔ اس کارروائی میں مذموم مقاصد رکھنے والے مؤکل حضرات کو کسی طرح بھی بہرحال بری الذمہ قرار نہیں دیا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس جمعہ کی شب حیدرآباد میں سندھ ہائیکورٹ بار ایسوسی ایشن حیدرآباد کی عہدیداران کی تقریب حلف برداری کی تقریب اور ہفتہ کو سانگھڑ بار کی اراکین سے خطاب کر رہے تھے۔

چیف جسٹس نے اپنے سامعین کو متنبہ کیا کہ یہ عدلیہ کے نظام کی بقاء کا سوال بھی ہے کیوں کہ ملک کے ایک علاقے (انہوں نے سوات کا نام نہیں لیا، نہ ہی نظام عدل کا ذکر کیا) میں انصاف کا جو نظام متعارف کرایا جارہا ہے اس میں سرے عام کوڑے مارے جارہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ ، وکلا اور سول سوسائٹی اس قسم کے مناظر دوبارہ دیکھنا کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔ اس صورتحال میں وکلا، ججز اور سول سوسائٹی کو اپنی ذمہ داری کا بھرپور احساس کرتے ہوئے آگے آنا ہوگا۔

ملک کے ایک علاقے میں انصاف کا جو نظام متعارف کرایا جارہا ہے اس میں سرے عام کوڑے مارے جارہے ہیں اور انسانیت کی تذلیل کی جا رہی ہے۔ تعلیم یافتہ لوگ ، وکلا اور سول سوسائٹی اس قسم کے مناظر دوبارہ دیکھنا کس طرح برداشت کرسکتے ہیں۔

جسٹس افتخار محمد چوہدری

جسٹس افتخار محمد چوہدری نے کہا کہ وکلا نے عدلیہ کی بحالی و آزادی کی تحریک میں بڑی قربانیاں دی ہیں۔ سول سوسائٹی، میڈیا اور قوم کی قربانیوں کو ہم فراموش نہیں کرسکتے۔ وکلا تحریک کے دوران 12 مئی اور 9 اپریل جیسے دل دہلا دینے والے ناخوشگوار واقعات بھی رونما ہوئے جب وکلا کو زندہ جلایا گیا۔ وکلا کے ساتھ ساتھ ان کے خاندان اب تک ابتلا اور آزمائش برداشت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ان قربانیوں کے بعد بھی اگر عدلیہ عوام کو انصاف فراہم نہ کرے تو قوم کے اعتماد کو زبردست ٹھیس پہنچے گی اور یہ نظام بھی درست نہیں ہو سکے گا۔ اس لیے ضروری ہے کہ فوری انصاف کو یقینی بنانے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کریں، دین میں جہاد کی اہمیت سے سب آگاہ ہیں، یہ کام بھی ایک جہاد کے فریضہ کی طرح انجام دینا ہوگا۔

تقریب میں سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) رانا بھگوان داس کی تقریر کچھ زیادہ ہی پسند کی گئی۔ انہوں نے کہا کہ جب تین نومبر کو عدلیہ پر ایک اور شب خون مارا گیا اور ایک زبانی حکم کے زریعے پہلی بار اعلیٰ ججوں کو گھروں میں قید کردیا گیا، ان کے اہل خانہ کو بھی نکلنے کی آزادی نہیں تھی، جن ججوں نے پی سی او کے تحت حلف لیا، اس پر ان حضرات نے قوم کو تو شرمندہ کیا ہی لیکن خود ان کا اپنا ضمیر بھی آج ملامت کرتا ہوگا، وہ اپنے اہل خانہ کی نظروں میں بھی گِر گئے ہوں گے۔

جس وقت وہ تقریر کر رہے تھے، اس وقت ان جج حضرات کی حالت دیدنی تھی۔ اسی طرح ان وکلا کی گردنیں جھکی ہوئی تھیں جنہوں نے وکلا تحریک سے علیحدگی اختیار کر کے حکومت کی ایما پر سرکاری ملازمتیں حاصل کر لی تھیں۔

جسٹس (ر) رانا بھگوان داس نے کہا کہ دنیا نے دیکھ لیا ہے کہ ہاری ہوئی اور زخم خوردہ عدلیہ کس طرح زندہ ہوگئی ہے۔ انہوں نے علامہ اقبال کا یہ شعر پڑھا ’خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی، جسے نہ ہو خود خیال اپنی حالت بدلنے کا‘

No comments: