Saturday, May 16, 2009

گوانتانامو ٹرائبیونل کی بحالی پر غم وغصہ

گوانتانامو ٹرائبیونل کی بحالی پر غم وغصہ

گوانتاموبے میں اس وقت بھی 240 قیدی ہیں

انسانی آزادیوں کے لیے کام کرنے والی تنظیموں نے صدر براک اوباما کے اس فیصلے پر شدید غم و غصہ کا اظہار کیا ہے جس کے تحت گوانتاناموبے کے چند قیدیوں کے مقدمات کو ملٹری ٹرائبیونل میں دوبارہ شروع کیا جائے گا۔

صدر براک اوباما نے اس سےقبل بش دور میں قائم کیے گئے اس عدالتی نظام کے بارے میں منفی جذبات کا اظہار کیا تھا اور کہا تھا کہ نئے اقدامات کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جائے گا کہ مشتبہ افراد کے مقدمات کی منصفانہ طور پر سماعت ہوسکے۔

جنوری 2009 میں صدرات کا منصب سنبھالتے ہی اوباما نے گوانتانامو جیل کو ایک سال کے اندر بند کرنے اور وہاں جاری ملٹری ٹرائیبونل کی کارروائی کو روکنے کا بھی اعلان کیا تھا۔ ان کا کہنا تطا کہ امریکہ اب ایک نئے دور میں داخل ہورہا ہے جں میں انسانی حقوس کا احترام کیا جائے گا۔

اوبامہ انتظامیہ کے ایک اہلکار نے کہا ہے کہ فوجی عدالتوں میں پہلے سے زیادہ بہتر قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ نئے قوانین کے تحت قیدیوں کے ان بیانات کو رد کردیا جائے گا جوقیدیوں پر سختی کرکے لیے گئے ہیں۔

کیوبا کی گوانتاموجیل میں اب بھی دو سو اکتالیس قیدی موجود ہیں۔ صدر اوباما نے گوانتاموبے جیل کو جنوری دو ہزار دس میں بند کرنے کا وعدہ کیا تھا۔

اہلکاروں کا کہنا ہے کہ ان فوجی ٹرائبیونل میں مقدمے کا سامنا کرنے والوں کو پہلے سے بہتر قانونی حقوق حاصل ہوں گے۔ بہتر قانوی حقوق کی وضاحت کرتے ہوئے اہلکار نے بتایا کہ ان ٹرائبیونل میں تشدد کے ذریعے حاصل ہونےوالی شہادت کو استعمال نہیں کیا جا سکے گا اور نہ ہی ’سنی سنائی‘ شہادتیں پیش ہو سکیں گی۔ وکیل منتخب کرنے کے عمل میں قیدیوں کی رائے کو پہلے سے زیادہ وزن دیا جائے گا۔

انسانی حقوق کے کارکنوں نے جنہوں نے بش انتظامیہ کے دور میں گوانتاموبے کے قیدیوں کا ملٹری ٹرائیبونل میں ٹرائل کے خلاف مہم چلائی تھی، صدر اوباما کے فیصلے پر مایوسی کا اظہار کیا ہے۔

امریکن سول لبرٹیز یونین کے جوناتھن ہافٹز نے کہا کہ اوبامہ انتظامیہ کا فیصلہ انتہائی مایوس کن ہے۔جوناتھن ہافٹز نے کہا کہ گوانتاموبے میں کوئی بھی قیدی ایسا نہیں ہے جس کا عام عدالتوں میں مقدمہ نہ چلایا جا سکے۔

صدر اوباما نے اپنی انتخابی مہم کےدوران فوجی عدالتوں کی تشکیل کو تنقید کا نشانہ بنایا تھا۔البتہ صدر اوباما کے مشیروں کا کہنا ہے کہ صدر نے کبھی بھی ملٹری کمیشن کو سرے سے رد کرنے کاوعدہ نہیں کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے صدر اوباما نے بطور سینیٹر ایک ایسے قانون کی حمایت کی تھی جس کا مقصد ہی فوجی کمشن کا قیام تھا۔

واشنگٹن میں بی بی سی کے نامہ نگار ایڈم بروکس کا کہنا ہے کہ امکان ہے کہ صدر اوباما نائن الیون کے ماسٹر مائنڈ خالد شیخ محمد جیسے قیدیوں کے عام عدالتوں میں مقدمات سے بچنے کے لیے ملٹری ٹرائیبونل کو بحال کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔

خیال کیا جاتا ہے کہ گوانتاموبے کے بیس قیدیوں کے مقدمے فوجی عدالتوں میں چلیں گے جبکہ باقی کچھ کو چھوڑ دیا جائےگا اور کچھ کو ان اپنے ممالک میں بھیج دیا جائے گا۔

No comments: