Monday, April 27, 2009

صوفی محمد، آئین پاکستان اور جنرل مشرف

مولانا صوفی محمد نے ایک نجی ٹیلی ویژن کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا ہے آئین پاکستان غیر شرعی نہیں۔ وہ اس کی مخالفت نہیں کرتے۔ مولانا کو عمل بھی اس رائے کے مطابق کرنا چاہئے۔ جناب مولانا کے ایماء پر طالبان نے بونیر کا علاقہ خالی کردیا ہے۔ یہ بہت اچھا ہوا ہے۔ تحریک نفاذ شریعت محمدی کو ساری توجہات سوات کے نظام عدل کو کامیاب بنانے پر مرکوز کر دینی چاہئیں۔ اہل سوات کو اس نظام کے ذریعے جس قدر سستا جلد اور شرعی اصولوں کے تحت انصاف ملے گا۔ ملک بھر میں اسے اتنی پذیرائی ملے گی۔ سوات ماڈل کی مقبولیت میں اضافہ ہوگا تو صوفی محمد صاحب کو سپریم کورٹ اور جمہوریت کے خلاف متنازعہ بیانات دینے کی ضرورت پیش نہ آئے گی۔ رائے عامہ آپ کے مطالبات کے حق میں ہموار ہو جائے گی۔ سارے ملک میں شریعت جمہوری عمل کے ذریعے نافذ کی جا سکتی ہے۔
آئین کے حق میں صوفی محمد صاحب کے بیان سے یہ تو ثابت ہو گیا ہے اور جمہوری پاکستان کے منتخب نمائندوں کی تیار اور نافذ کردہ یہ متفق علیہ قومی دستاویز جو بیک وقت اسلامی بھی اور جمہوی بھی ہر ایک کی نظر میں محترم اور بالادست ہے۔ اس کے بارے میں دو رائے نہیں پائی جاتیں۔ یہ آئین اپنی اصل حالت میں جتنا زیادہ نافذ اور مؤثر ہوگا۔ قومی اتحاد اور یکجہتی میں اسی تناسب سے اضافہ ہو گا۔ ابھی تک آئین کے حسین ماتھے پر فوجی آمریت کے لگائے ہوئے سترہویں ترمیم کے بدنما داغ کو مٹایا نہیں جا سکا۔ اگرچہ بہت وعدے کئے گئے ہیں اٹھارہویں ترمیم کا حتمی مسودہ قائم کرنے کے لئے پارلیمنٹ کی کمیٹی کے حق میں قرارداد بھی منظور ہو گئی ہے لیکن کمیٹی بن نہیں پا رہی۔ آخر کیوں اور تاخیر کس لئے۔ جب تک کتاب آئین میں یہ سقم رہے گا اس کے مکمل نفاذ کی خاطر حکومتی اپیلوں اور اقدامات کے اندر بھی ضروری اصولی اور اخلاقی طاقت پیدا نہ ہوگی۔ جہاں صوفی محمد صاحب اور تحریک طالبان پاکستان سے بجا طور پر یہ مطالبہ کیا جا رہا ہے وہ اپنی سرگرمیوں کے دوران آئینی حدود کو پامال نہ کریں۔ وہیں قوم اپنے حکمرانوں سے توقع کرتی ہے۔ وہ ہر ہر قدم پر آئینی اداروں کا پاس لحاظ کریں گے اور کسی حوالے سے یہ تاثر نہیں پیدا ہونے دیں گے کہ اہم امور پر ان کی ملاقاتوں اور فیصلوں کے وقت دستوری طرز عمل یا اداروں کو نظر انداز کیا جا رہا ہے۔ جمعہ 24 اپریل کو طالبان کی بونیر تک یلغار اور اس سے بھی آگے بڑھ جانے کے خدشات کی روک تھام کی خاطر ایوان صدر میں جناب صدر، وزیراعظم، چیف آف دی آرمی سٹاف، وزیر خارجہ اور جناب اسفند یار ولی کے مابین مشاورتی اجلاس منعقد ہوا۔ اگلے روز اخبارات نے اسے ٹرائیکا کے اجلاس کا نام دیا ہے۔ یہ کیا چیز ہے۔ اس کی آئینی حیثیت کیا ہے اور اسے کس قسم کے فیصلے کرنے کا اختیار حاصل ہے۔ آئین کی رو سے حکومت اور فوجی قیادت کی باہمی مشاورت کے لئے کابینہ کی دفاعی کمیٹی کا باقاعدہ ادارہ موجود ہے اگر ضرورت تھی تو اس کا اجلاس منعقد کیا جاتا۔ اس سے آئینی ادارہ اور طرز عمل دونوں مضبوط ہوتے۔ اہل وطن جاننا چاہتے ہیں ایسا کیوں نہیں ہوا۔
جنرل مشرف نے انگڑائی لی ہے۔ کہا ہے وہ دوبارہ برسر اقتدار آنے کے لئے تیار ہیں تاکہ حالات میں سدھار پیدا کریں۔ سبحان اللہ۔ اس وقت جو بگاڑ پایا جاتا ہے وہ آپ ہی کے آٹھ سالہ درو آمریت کا کرشمہ ہے۔ جو بلاشبہ قوم کے لئے روگ جان بنی ہوئی ہیں وہ آپ کی بندوق کی نالی پر قائم کردہ حکومت کا شاخسانہ ہیں۔ اب دوبارہ حکومت کی باگیں ہاتھ میں لیکر آپ رہی سہی کسر پوری کرنا چاہتے ہیں اور ملک کا آخری حد تک ستیاناس کرنے کے درپے آزاد ہیں۔ جنرل مشرف نے دوبارہ حکومت سنبھالنے کی پیشکش قوم کو نہیں کی۔ اس نے یہ بیان دے کر امریکہ کو باور کرایا ہے۔آپ کا جتنا وفادار ایجنٹ میں تھا اور کوئی نہیں ہو سکتا۔ آج پاکستانی حکومت اور فوج آپ کے احکامات پوری طرح بجا نہیں لا رہی تو وجہ یہ ہے کہ ان کے اندر میرے جیسا کتوں سے پیار کرنے والا آپ کا وفادار نہیں پایا جاتا۔

No comments: