Monday, April 27, 2009

واجد شمس الحسن مستعفی ہوں

واجد شمس الحسن مستعفی ہوں

ڈاکٹر محمد اجمل نیازی ـ 24 اپریل ، 2009
برطانیہ میں شرمناک طریقے سے پاکستانی طلبہ کو گرفتار کیا گیا اور اذیت ناک طریقے سے رہا کیا گیا۔ دونوں کام بڑی تسلی سے انہوں نے خود کیا۔ پاکستانی حکومت اور پاکستانی سفارت خانے نے کچھ نہیں کئے۔ دونوں کا رویہ بے بسی‘ بے حسی بلکہ بے غیرتی کا رہا۔ سابق سیکرٹری خارجہ دانش اور دردمندی سے لبریز شخص شمشاد احمد خان نے کہا کہ اگر میں سیکرٹری خارجہ ہوتا تو فوراً برطانیہ میں پاکستانی ہائی کمشنر واجد شمس الحسن سے جواب طلبی کرتا۔ گزارش شمشاد صاحب سے یہ ہے کہ صرف جواب طلبی بہت کم ہے۔ اس کے خلاف محکمانہ کارروائی ہونی چاہئے مگر وہ تو سفارت کاری کے محکمے کا آدمی ہی نہیں۔ وہ تو صحافی ہے اور اس نے زرداری صاحب‘ رحمان ملک اور پیپلزپارٹی کے لئے کچھ کالم لکھے ہونگے۔ جس کے صلے میں اسے یہ منصب دے دیا گیا ہے اس سے پہلے ڈاکٹر ملیحہ لودھی بھی صحافی تھیں۔ بے نظیر بھٹو کے قریب ہوئیں پھر جنرل پرویز مشرف کے عنقریب ہو گئیں۔ سیاست کے علاوہ صحافت میں بھی لوٹا ازم ہے۔ امریکہ میں پاکستان کے سفیر حسین حقانی بھی ایسے ہی ہیں۔ کبھی وہ نواز شریف کے بڑے چہیتے تھے۔ پھر بے نظیر بھٹو کے لاڈلے ہو گئے اور پھر آصف زرداری کے گہرے دوست بن گئے۔ ان کی اہلیہ فرح اصفہانی پیپلزپارٹی کی ایم این اے ہیں اور ایوان صدر میں زیادہ قومی اسمبلی میں کم نظر آتی ہیں۔ برادرم عطاء الحق قاسمی ممتاز صحافی ہیں اور ناروے میں سفیر تھے۔ ان کی یہ بات اہم ہے کہ وہ نواز شریف کے اب تک ساتھ ہیں۔ وہ صحافت میں سفارت کی اہمیت کو جانتے ہیں۔ بہرحال واجد شمس الحسن اچھے سفیر ثابت نہیں ہوئے جبکہ اس حوالے سے صحافیوں کی کارکردگی بری نہیں۔ پاکستانی حکومت امریکہ اور یورپ کے حوالے سے بہت محتاط اور خوفزدہ رہتی ہے۔ امریکہ اور برطانیہ کے علاوہ کسی ملک کا آدمی اس طرح پھنس جائے تو متعلقہ حکومتیں بہت کچھ کر گزرتی ہیں۔ برطانیہ کے ایک صحافی کے لئے شہزادہ چارلس بذات خود پاکستان آئے تھے۔ صدر زرداری‘ وزیراعظم گیلانی‘ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور مشیر داخلہ رحمان ملک نے بھی کوئی دلچسپی نہیں لی۔
اگر یہ طالب علم کسی وزیر شذیر‘ امیر کبیر یا افسر وغیرہ کے بیٹے ہوتے تو اب تک طوفان آچکا ہوتا۔ اپنے ایک دوست کے بیٹے کے لئے پنجاب کے ایک وزیراعلیٰ عارف نکئی خود تھانے پہنچ گئے تھے۔ اس طرح کے لوگوں پر ہاتھ ہی نہیں ڈالا جاتا۔ برطانیہ کے لئے مشہور ہے کہ وہ قانون پسند ملک ہے مگر ان کا قانون پاکستان کے لئے مختلف ہے۔ وہ کسی اور ملک کے طالب علموں کو گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے کسی بڑے چھوٹے آدمی کو کسی قابل نہیں سمجھتے۔ مگر عام پاکستانیوں کو وہ بھی خاطر میں لانے کے لئے تیار نہیں۔ جب انہیں ایک لائبریری میں سے گن پوائنٹ پر گرفتار کیا گیا وہاں بھی زمین پر لٹا کے تشدد کیا گیا۔ انہیں صرف شک کی بنا پر ذلیل و خوار کیا گیا۔ پاکستانیوں کے لئے ان کا شک ہی ان کا یقین ہے۔ پاکستانی ہونا ہی اصل قصور ہے۔ دہشت گردی کے الزام کے لئے صرف پاکستانی ہونا کافی ہے چونکہ یہ لڑکے پاکستانی تھے تو برطانوی وزیراعظم گورڈن براؤن اور وزیر خارجہ ملی بینڈ نے بھی دلچسپی لی۔ تفتیش پاکستانی انداز میں کی گئی۔ جوتا بھی کسی پاکستانی تھانے سے برآمد کیا گیا ہو گا۔ اس کے باوجود وہ کچھ ثابت کرنے میں کامیاب نہ ہو سکے۔ اس کے لئے انہوں نے معافی بھی نہیں مانگی۔ بس یہ کہ انہوں نے بے گناہ پاکستانی سٹوڈنٹس کو معاف کر دیا۔ وہ تو انہیں ڈیپورٹ کر کے پاکستان واپس بھیجنا چاہتے ہیں اور بھیج دیں گے کہ پاکستانی سفارت خانہ اور پاکستانی حکومت کیا کر لے گی۔ اس حوالے سے لارڈ نذیر کا کردار قابل تعریف ہے۔ وہ برطانوی شہری ہیں اور ہاؤس آف لارڈز کے ممبر ہیں۔
چاہئیے تو یہ تھا کہ برطانوی پولیس اور ایجنسیوں کے جس آدمی نے یہ سارا منصوبہ بنایا ہے اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ کیا برطانیہ یا کسی اور غیرت مند ملک کے طالب علموں کے ساتھ ایسا انسانیت سوز اور تعلیم دشمن سلوک کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایک بین الاقوامی جرم ہے اور اس کی سزا متعلقہ لوگوں کو دی جائے۔ ہمارے ہائی کمشنر تو ہر صورت میں مستعفی ہوں۔ آخر ایک سفارت کار کا کام کیا ہوتا ہے۔ ہمارے اکثر سفارت کار ایسے ہیں کہ ان سے استعفیٰ لیا جائے۔ انسانی حقوق کی تنظیمیں کہاں ہیں۔ وہ پاکستان کو بدنام کرنے کے لئے امریکی اشارے پر بہت شور مچاتی ہیں۔ این جی اوز والیاں اس معاملے میں خاموش کیوں ہیں۔ کسی ایک ایسی خاتون نے کوئی بات نہیں کی۔ حقوق صرف وہ ہیں جن کے لئے تحریک چلائی جائے کہ امریکہ سے فنڈز ملیں اور جس سے پاکستان کو نقصان پہنچے۔ سوچنے کی بات یہ ہے کہ ہمارے لوگ یورپ اور امریکہ ہی کیوں جاتے ہیں۔ چین کیوں نہیں جاتے۔ چین اب دنیا میں ہر معاملے میں آگے ہے۔ شاید چین میں عیاشی نہیں۔ ورنہ میرے رسول عالم حضرت محمدﷺ نے کہا تھا کہ ’’علم حاصل کرو خواہ تمہیں چین ہی کیوں نہ جانا پڑے‘‘۔ یہ ہدایت ہے جس پر ہمیں عمل کر کے ہی فائدہ ہو گا۔ وہاں سب کچھ ہے جدید سائنسی علوم‘ ٹیکنالوجی اور عزت۔ ہمیں عزت نہیں چاہئے اب ہم یورپ اور امریکہ صرف اپنی بے عزتی کرانے جاتے ہیں۔ ہم بھکاری ہیں اور بھکاری کو عزت راس نہیں۔ عام آدمی کو اپنے ملک پاکستان میں عزت نہیں ملتی۔
برطانیہ میں نمبر دو یونیورسٹیاں بہت ہیں جہاں ڈگریاں بکتی ہیں۔ وہ کسی نہ کسی طرح پاکستانی طالب علموں کو ذلیل کر کے نکالتے رہتے ہیں تاکہ دوسرے طلبہ سے فیسیں وغیرہ حاصل کی جائیں۔ پاکستان میں بھی اس طرز پر یونیورسٹیاں کھل گئی ہیں۔ دو دو کمروں میں یونیورسٹیاں بنی ہوئی ہیں۔ اب کچی آبادیوں اور جھگیوں میں بھی یونیورسٹیاں ہونگی۔ اس کے علاوہ برطانیہ میں بے روزگاری ہے۔ معاشی بحران ہے۔ وہاں ایک نعرہ چلا ہوا ہے۔ برٹش جاب اونلی فار برٹش نیشنل (برطانوی ر وزگار صرف برطانویوں کیلئے) اب وہ غیر ملکیوں کو نکال رہے ہیں۔ اس لحاظ سے پاکستانیوں کو نکال باہر کرنا آسان ہے۔ نہ پاکستانی حکومت غیرت کرتی ہے نہ پاکستانی سفارت خانہ احتجاج کرتا ہے۔ محتاج لوگ احتجاج نہیں کر سکتے۔ !!

No comments: