Monday, March 16, 2009

سولہ مارچ، ایک نئی’صبح آزادی‘


یہ بحالی پاکستان میں عدلیہ کے بطور ادارہ جڑ پکڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے

افتخار محمد چودھری کی بطور چیف جسٹس بحالی پاکستان کے سوکھے دھانوں مینہ برسنے کے مصداق محسوس ہوتی ہے کہ ایک قانون دان کے ہاتھوں وجود پذیر ہونے والے اس ملک میں قانون کے فتح یاب رہنے کی مثالیں کم ہی ہیں۔

تقریباً دو برس کی معطلی و معزولی کہیے یا جنرل مشرف ، آصف زرداری اور فاروق نائیک کے بقول برطرفی قرار دے دیجیے، ملک کے اعلٰی ترین عدالتی منصب پر جسٹس افتخار محمد چودھری کی بحالی بہت سے اعتبار سے تاریخی ہے۔

انہوں نے تاریخِ پاکستان کے ایسے چیف جسٹس کا اعزاز تو پہلے ہی حاصل کر لیا تھا جس نے ہر طرح کی طاقت سے مالامال اور اسی کے نشے میں مدہوش فوجی آمر کے سامنے سر جھکانے سے نہ صرف انکار کیا بلکہ مستعفی ہونے کو بھی مسترد کر دیا۔ اب اس بحالی سے انہوں نے پاکستان میں بندوق پر میزان کی فتح کی اب تک کی واحد مثال بھی قائم کر دی ہے۔

درحقیقت جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کئی اور لحاظ سے بھی غیرمعمولی اہمیت کی حامل ہے۔

سب سے بڑھ کر اس بحالی سے پاکستان کی اب تک کی بدقسمت اور حالیہ دنوں میں بدنام عدلیہ کے لیے اعزاز، افتخار اور تعظیم کا بھی امکان پیدا ہوا ہے۔ مستقبل میں اعلٰی عدلیہ کے جج صاحبان میزان کو انصاف پر رکھتے ہوئے یقینی طور پر اس بات کو بھی مدنظر رکھیں گے کہ ملک کے عوام قانون کی عملداری میں پوری طرح ان کے پشتیبان ہیں۔

ب تک ججوں اور اعلٰی عدلیہ کو حاکم وقت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر انصاف سے مایوس رہے سترہ کروڑ عوام کی بلند امیدوں کا مرکز یہی جج ہوں گے۔ بلوچستان میں وسائل پر اپنا جائز حق مانگنے والا اگر ان ججوں کی جانب دیکھے گا تو لاپتہ ہوجانے والوں کے ورثاء کی نظریں بھی انہی ججوں پر ہوں گی۔

اس بحالی سے ایک فوری فائدہ یہ بھی ہوگا کہ مستقبل میں انصاف کی لاش سے گزر کر گاڑیوں پر جھنڈے لہرانے میں کوئی عار محسوس نہ کرنے والے عدل کے ایسے تاجر کہ اب تک جن کی پاکستان میں کمی محسوس نہ ہوتی تھی، شاید اتنی آسانی سے دستیاب نہ ہو پائیں۔ اس جنس کی عدم دستیابی کا نتیجہ لازماً ایک زیادہ بااعتماد اور آزاد عدلیہ کی شکل میں ہی نکلے گا۔

جسٹس افتخار چودھری کے دوبارہ چیف جسٹس کے منصب پر فائز ہونے سے پاکستان کے حکمرانوں کواگر ایک طرف قانون کے سامنے سر جھکانے کی عادت پڑ سکتی ہے تو دوسری جانب سیاستدانوں کو بھی یہ ترغیب مل سکتی ہے کہ سیاست میں قانون کی پاسداری اور سر بلندی کامیابی کی جانب بھی لے جا سکتی ہے۔

یہی بحالی پاکستان میں عدلیہ کے بطور ادارہ جڑ پکڑنے کا باعث بھی بن سکتی ہے کہ آج کے بعد عدلیہ شاید صرف عدلیہ کے طور پر دیکھی جاسکے ناکہ پی سی او عدالتوں، فوجی آمر کی عدالتوں، جمہوری آمر کی عدالتوں، پیپلز پارٹی کی عدلیہ، مسلم لیگ کی عدلیہ وغیرہ وغیرہ کے مصداق۔ اسی طرح شاید جج حضرات بھی خود کو صرف جج سمجھیں ناکہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ، جی ایچ کیو اور ایم کیو ایم وغیرہ کے۔لیکن اس بحالی کے ساتھ ہی جسٹس افتخار چودھری اور ان کا ساتھ نہ چھوڑنے والے انتہائی بہادر اور قابل قدر ججوں کی بڑی ہی غیرمعمولی آزمائش بھی شروع ہوگئی ہے۔

اب تک ججوں اور اعلٰی عدلیہ کو حاکم وقت کے ہاتھ کی چھڑی اور جیب کی گھڑی سمجھ کر انصاف سے مایوس رہے سترہ کروڑ عوام کی بلند امیدوں کا مرکز یہی جج ہوں گے۔ بلوچستان میں وسائل پر اپنا جائز حق مانگنے والا اگر ان ججوں کی جانب دیکھے گا تو لاپتہ ہوجانے والوں کے ورثاء کی نظریں بھی انہی ججوں پر ہوں گی۔ کراچی میں بارہ مئی دوہزار سات کو مارے جانے والے اپنے لہو کا حساب اگر ان ججوں سے مانگیں گے تو اوکاڑہ کے دوردراز کھیتوں میں کئی عشروں تک ہل کی انی سے زمین کا سینہ چیر کر بمشکل جسم و جاں کا رشتہ برقرار رکھنے والے کاشتکار بھی اپنی زمین بندوق کے زور پر چھینے جانے کا ازالہ انہی ججوں کے ہاتھوں چاہیں گے۔

جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اصل فائدہ پاکستانی سماج کو ہونا ہے جس کو اس تاریخی کامیابی سے یہ حوصلہ ملا ہے کہ عوام کی طاقت ملک کی تقدیر کا اہم ترین فیصلہ کرا سکتی ہے۔ آج کے بعد حاکم وقت آئین اور قانون کو موم کی ناک بنانے سے پہلے سو بار ضرور سوچیں گے کیونکہ اب آئین اور قانون کی عمل داری کی ضمانت عبوری آئینی احکامات ، آرڈیننس، ایک سو چوالیس اور امتناعی احکامات اور ریاستی طاقت نہیں، بلکہ سترہ کروڑ بااعتماد لوگوں کی شکل میں ملے گی۔

یہی نہیں، اس بحالی کے بعد انتہائی غالب امکان یہی ہے کہ نہ صرف ایسے مقدمات اور ان مقدمات کے فریق ان کے سامنے ہوں گے جو کل تک انہی ججوں پر سب و شتم کرتے رہے۔ اور تو اور ممکنہ طور پر جنرل مشرف پر غداری، آئین شکنی اور بغاوت کے مقدمات بھی انہی ججوں کے سامنے آئیں گے۔ اب تک ثابت قدم رہنے والے اور بطور جج اپنا وقار قائم رکھنے والے منصفین کو میزان اپنے ہاتھوں میں دوبارہ اٹھانے سے پہلے اس بات پر غور کرنا ہوگا کہ کیا یہ بھاری پتھر وہ اٹھا بھی سکیں گے۔

لیکن ان تمام باتوں کے ساتھ ساتھ جسٹس افتخار چودھری کی بحالی کا اصل فائدہ پاکستانی سماج کو ہونا ہے جس کو اس تاریخی کامیابی سے یہ حوصلہ ملا ہے کہ عوام کی طاقت ملک کی تقدیر کا اہم ترین فیصلہ کرا سکتی ہے۔ آج کے بعد حاکم وقت آئین اور قانون کو موم کی ناک بنانے سے پہلے سو بار ضرور سوچیں گے کیونکہ اب آئین اور قانون کی عمل داری کی ضمانت عبوری آئینی احکامات ، آرڈیننس، ایک سو چوالیس اور امتناعی احکامات اور ریاستی طاقت نہیں، بلکہ سترہ کروڑ بااعتماد لوگوں کی شکل میں ملے گی۔

اور سب سے بڑھ کر آئندہ کوئی بھی فوجی طالع آزما بندوق کے زور پر اس ملک و قوم کی قسمت سے کھیلنے سے پہلے کم سے کم سو بار تو ضرور سوچے گا۔ اب یہ توقع کرنا بلاشبہ عجب نہیں ہے کہ ضیاءالحقوں اور پرویز مشرفوں کا ذکر آئندہ صرف سیاہ الفاظ میں تاریخ کے صفحات میں ہی ملے گا۔

قیام پاکستان کے بہت بعد پیدا ہونے والی نسل کے لیے اگر نو مارچ دو ہزار سات قرارداد پاکستان کے برابر تھا تو سولہ مارچ دو ہزار نو کی تاریخ صبحِ آزادی سے کم نہیں ہے

No comments: