Friday, December 9, 2011

Pakistan and Wolrd (views on news): امریکی فوج،پاکستان سمیت135ممالک میں

Pakistan and Wolrd (views on news): امریکی فوج،پاکستان سمیت135ممالک میں

امریکی فوج،پاکستان سمیت135ممالک میں

امریکی فوج،پاکستان سمیت135ممالک میں

جنگی جنون میں مبتلا عالمی سپر پاور ملک امریکہ کی فوج اس وقت بر اعظم ایشیا کے اہم ترین ملک پاکستان سمیت دنیا کے135 ممالک میں موجود ہے  جن پر یومیہ اربوں ڈالر خرچ کیا جارہا ہے۔
امریکی محکمہ دفاع کی ویب سائٹ کے مطابق امریکی آرمی، نیوی، میرین، ایئر فورس اور کوسٹ گارڈ پر مشتمل  لاکھوں فوجیوں کے دستے دنیا کے 135 ممالک  کے800 سے زائد اہم  جگہوں پر موجود ہیں  جب کہ امریکا نے پاکستان سمیت دنیا کے کئی اہم ممالک میں اپنے فوجی اڈے بھی قائم کررکھے ہیں۔
عالمی  حکمرانی  کا خواب دیکھنے والے امریکہ  کی فوج اس وقت جرمنی ، برطانیہ، جاپان، اٹلی، کوریا، یورپ، سوویت یونین، پاکستان، افریقہ، ایشیا اور یورپ کے135 ممالک میں ہتھیاروں اور جنگی ساز و سامان سے مسلح ہو کر اپنے اہداف کے حصول میں مصروف ہے۔
دی نیوز ٹرائب کی تحقیقاتی رپورٹ کے مطابق گزشتہ برس کے آخر تک عراق میں 85 ہزارسے زائد امریکی فوجی اہلکار موجود تھے جب کہ افغانستان میں ایک لاکھ 37 ہزار سے زائد، جرمنی میں 52 ہزار ، جاپان میں 36 ہزار کے قریب، عوامی جمہوریہ کوریا میں 29 ہزار ، اٹلی میں 10 ہزار، جب کہ برطانیہ میں 9 ہزار سے زائد امریکی فوجی موجود ہیں۔
امریکی محکمہ دفاع کے مطابق  دہشتگردی کے خلاف جنگ میں امریکہ کے اہم اتحادی پاکستان میں صرف 146 امریکی فوجی اہلکار موجود ہیں جن میں 130 میرین، 11 ایئر فورس اور 6 آرمی سے تعلق رکھتے ہیں۔
سال 2010 کے اختتام تک 78 ہزار کے قریب امریکی فوجی یورپ میں موجود تھے جب کہ سوویت یونین میں ان کی تعداد 150بتائی گئی ہے، مشرقی ایشیا کے مختلف ممالک میں 48 ہزار ، شمالی افریقہ کے مختلف ممالک میں ساڑھے تین ہزار ، جنوبی  اور مشرقی افریقہ کے مختلف ممالک میں 1400 سے زائد جب کہ افریقی  صحارہ کے علاقوں میں 2000 کے قریب امریکی اہلکار موجود تھے۔
دستیاب رپورٹس کے مطابق  امریکہ کا جنگی بجٹ پوری دنیا کے دفاعی اخراجات کا 43 فیصد حصہ ہے، امریکہ کا سالانہ جنگی بجٹ 698 ارب ڈالر تک ہے جب کہ سال 2010 میں امریکی جنگی بجٹ کے لئے 553 ارب ڈالر رکھے گئے تھے۔
دنیا بھر میں موجود لاکھوں امریکی فوجی اہلکاروں کا اربوں روپے کا بجٹ امریکی معیشت کے لئے جان لیوا ثابت ہوا ہے اور حکومت اندرونی و بیرونی قرضوں میں ڈوبی ہوئی ہے، گرتے  ہوئے ممالک کو سہارا دینے کا شوق رکھنے والا امریکہ اس وقت در حقیقت خود بکھر چکا ہے۔
 گزشتہ ماہ کے آخر میں پاک، افغان سرحد پہ قائم سلالہ چیک پوسٹ پر نیٹو حملے میں کم سے کم 24 پاکستانی فوجیوں کی شہادت کے بعد پاکستان نے نیٹو کو تیل  کی فراہمی بند کردی تھی جس کی وجہ سے نیٹو کو تیل حاصل کرنا حد سے زیادہ مہنگا پڑ رہا ہے جب کہ  نیٹو کو اشیاء خردونوش اور ضروری اشیاء ہیلی کاپٹر کے ذریعے پہنچائی جاتی ہیں۔
یادر ہے کہ امریکی وزیر خارجہ  ہیلری کلنٹن نے چند روز قبل امریکا کے فارن پالیسی نامی میگزین میں تحریر کیے اپنے آرٹیکل میں  دنیاکے ملکوں  پر حملے کو نئی تجارتی منڈیاں تلاش کرنے کا ایک طریقہ بتایا  تھا۔

پاکستان اور بندر

پاکستان اور بندر

ایک ہیٹ بیچنے والا دوپہر کے وقت ایک درخت کے سائے تلے سوگیا تاکہ کچھ آرام کرے۔ برابر میں ہیٹ (Hat) کی ٹوکری رکھی تھی۔ جب وہ سو کر اٹھا تو اس نے دیکھا کہ ٹوکری غائب ہے۔ اچانک اس کی نظر درخت کے اوپر پڑی جہاں بندر اس کے ہیٹوں سے کھیل رہے تھے۔ وہ پریشانی کے عالم میں اپنا سر کھجانے لگا لیکن وہ حیران رہ گیا کہ بندر بھی اس کی پیروی کرتے ہوئے سر کھجا رہے ہیں ۔ اس نے ایک دو حرکتیں اور کیں اور دیکھا کہ بندر اس کی ہر حرکت کی نقل کر رہے ہیں ۔ اچانک اس کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا۔ اس نے اپنے سر پر سے ہیٹ اتار کر زمین پر پھینک دیا۔ تمام بندروں نے اس کی پیروی میں اپنے ہیٹ زمین پر پھینک دیے۔ اس طرح ہیٹ کے مالک نے انہیں جمع کیا اور اپنی راہ لی۔

اتفاق سے اسی ہیٹ بیچنے والے کا ایک پوتا بھی ہیٹ فروش بن گیا۔ اس نے اپنے دادا سے یہ کہانی سن رکھی تھی۔ اس نے آزمانے کے لیے ایک دن ہیٹ ٹوکری میں ڈالے اور ایک درخت کے نیچے سستانے لیٹ گیا۔ اس کی توقع کے عین مطابق کچھ دیر بعد بندر اس کی ٹوکری لے اڑے۔ اس نے اپنا سر کھجانا شروع کیا تو بندروں نے بھی اس کی نقل کی۔ یہاں تک کہ اس نے اپنا ہیٹ زمین پر پھینکا۔ وہ ابھی سوچ ہی رہا تھا کہ ایک بندر نیچے اترا اور اس کا زمین پر پڑا ہوا ہیٹ اٹھایا پھر اس نے ہیٹ فروش کے ایک تھپڑ رسید کیا اور بولا ’’بیوقوف! کیا تو یہ سمجھتا ہے کہ صرف تیرا ہی دادا تھا‘‘؟

ہماری سوسائٹی میں دوسروں کو بیوقوف بنانے کی وبا عام ہے۔ اپنے مفاد کی خاطر ہر شخص دوسرے کا گلا کاٹنے پر تلا ہے۔ اس ’’ڈیڑھ ہوشیاری‘‘ کے سحر میں ایک فیکٹری کا مالک بھی ملوث ہے اور ایک پھل فروش بھی۔ ایک دودھ والا مہنگائی کا نعرہ لگاتے ہوئے دودھ کی قیمت میں ناجائز اضافہ کر دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ صرف وہ ہی عقل مند ہے اور دوسرے بیوقوف ہیں۔ لیکن پھر دوسرے لوگ بھی چالاکی سیکھ لیتے ہیں ۔ چنانچہ وہ دودھ والا جب ناجائز منافع اپنی جیب میں بھر کے بازار میں نکلتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ یہاں تو اس سے بھی بڑے ’’ڈیڑھ ہوشیار‘‘موجود ہیں جو اس کے ناجائز منافع کو سود کے ساتھ وصول کرنے پر تلے ہوئے ہیں ۔

اس وقت ہماری پوری سوسائیٹی مہنگائی کا رونا رو رہی ہے۔ اس مہنگائی کے کئی اسباب میں سے ایک سبب دوسرے کو بیوقوف بنانا ہے لیکن اس عمل کی مثال ٹینس (Tennis) کی بال کی مانند ہے جسے جتنی قوت سے دیوار پر مارا جائے گا وہ اتنی ہی شدت سے واپس پلٹ آئے گی۔

دوسروں کو بیوقوف مت سمجھئے کیونکہ دوسرا بھی آپ کے بارے میں یہی سوچ سکتا ہے۔ اکثر چالاکی کرنے والا خود ہی بیوقوف بن جاتا ہے۔

 
 
by Waheed baloch

جاوید احمد غامدی المعروف کاکو شاہ اور امریکی اسلام

المیہ یہ نہیں کہ لوگ دین کا فہم نہیں رکھتے بلکہ یہ ہے کہ بعض قوتیں دین کا نام لے کر دین پر حملہ آور ہیں دینی اصلاحات کی آڑ لے کر دین کی روح کو کچلنے کے درپے ہیں ان کے عزائم مخفی ہیں نہ ہتھکنڈے نئے بلکہ سب کچھ واضع اور صاف نظر آنے کے باوجود تحفظ دین کے ذمداران اچکوں کی وارداتوں پر مہر بلب ہیں، بلکہ اٹھائی گیروں کی حرکتوں کو دیکھنے اور جانتے ہوئے چپ ہیں کہ انتہا پسندی کا الزام نہ لگ جائے، ہماری رواداری پر دھبہ نہ لگ جائے دین چاہئے بدنام ہو اس کا چاہئے کوئی حلیہ بگاڑ دے بس ہم پر الزام نہ آئے ہمیں کانٹا نہ چھبے ہمیں برا نہ کیا جائے۔۔
اس احتیاط پسندی کا نتیجہ ہے کہ آج کاکوشاہ جیسے لوگ شارح دین ہونے کے دعویدار ہیں دین کی روح سے ناواقف لوگ اجتہاد کی کبڈی میں مصروف ہیں اور حالت یہ ہے کہ کشمالہ طارق کہتی ہیں (میں اجتہاد کروں گی) اجتہاد کیا ہے؟؟؟۔۔۔ اس کی شرائط کیا ہیں؟؟؟
جن لوگوں نے اپنے عزائم اور فاسد نظریات کی ترویج میں احادیث کو رکاوٹ گردانا ، انہوں نے حجیت حدیث کا انکارکیا، جن لوگوں نے صحابہ کرام کے طرز عمل اور اسوہ کو اپنی خواہشات کی تکمیل کے لئے آڑ سمجھا، انہوں نے اجماع صحابہ اور اجماع امت سے منہ پھیرلیا۔ جنہوں نے فقہائے کرام کی تحقیقات وتدقیقات اور استنباط کو اپنی نفس پرستی اور خواہش پرستی کے سامنے دیوار سمجھا، انہوں نے فقہائے کرام کی تقلید کاسرے سے انکار کردیا۔
ٹی وی پروگراموں سے شہرت پانے والے جاوید احمد غامدی جو دین و شریعت کے ہر مسئلہ کو اپنی عقل کی میزان پر تولتے ہیں اور ان کی عقل رسا میں جو مسئلہ فٹ نہیں بیٹھتا تو اس کا انکار کرنا اپنا فرض منصبی اور ضروری حق گردانتے ہیں۔ موصوف کی کج راہیوں کی ایک طویل فہرست ہے، مختصر یہ کہ مسلمات امت کے باغی، ہم جنس پرستی کے مجوز، حد رجم کے قائل نہیں، سزائے ارتداد کے منکر، اجماع امت اور حدیث سے نالاں اور خفا ہیں۔
یوں تو ...جیسا کہ پہلے عرض کیا گیا ہے ... جناب جاوید احمد غامدی صاحب نے بے شمار منصوص اور قطعی عقائد اور اسلامی نظریات کے بارہ میں قرآن، سنت، اجماع امت اور امت مسلمہ کے چودہ سو سالہ تعامل کے خلاف الگ راہ اختیار کی ہے، تاہم ان میں سے چند ایک درج ذیل ہیں: وہ سزائے ارتداد کے منکر ہیں، وہ رجم کے حد شرعی ہونے سے انکاری ہیں، وہ مرد اور عورت کی دیت میں فرق کے قائل نہیں، وہ حیات و نزول عیسیٰ علیہ السلام کے قطعی عقیدہ کے منکر ہیں، وہ فرد کی حد تک جہاد کے منکر ہیں، وہ افراد امت کو نہی عن المنکر کا مامور نہیں مانتے، وہ اجماع امت کو پرکاہ کا درجہ نہیں دیتے، وہ سنت کے قائل نہیں وغیرہ وغیرہ۔ 
اس شخصیت کی تلاش میں کچھ زیادہ دور جانے کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کوئی بھی ٹی وی چینل کھول لیں اس پر دینی اقدار اور دینی روایات کے خلاف اپنی سوچ کو بطور حجت پیش کرتے ہوئے جو شخص دکھائی دے وہی حکومت کا فیضی یعنی (علامہ) جاوید غامدی ہے۔جن کا سنت کی تعریف سے لے کر قرآن حکیم تک اُمت سے اختلاف ہے اور موصوف کا دعوٰی ہے کہ چودہ سوبرس میں دین کی کو ان کے سوا کوئی سمجھ ہی نہیں سکا۔ وہ صحابہ رضی اللہ عنہ کے اعمال و فیصلوں سے لے کر آئمہ احادیث تک سے اختلاف کرتے ہیں اور جہاں دال نہ گلے قرآن کو چھوڑ کر تورات اور انجیل تک سے اپنے مقصد کے احکامات نکال لینے میں ثانی نہیں رکھتے۔ خود کو علامہ کہلواتے ہیں لیکن مبلغ علمی اتنا ہے کہ بی اے کرنے کے بعد علم کا دورہ پڑا اور پھر ازخود مطالعہ کرتے کرتے مجتہدین بن بیٹھے۔ ان کے ساتھ سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہر چند برس بعد ان کے نظریات میں جوہری تبدیلی واقع ہوتی ہے اس کے ساتھ ہی ان کے ساتھی انہیں چھوڑ جاتے ہیں اور وہ نہ صرف اپنے نظریات بلکہ ساتھیوں کو بھی چھوڑ کر اگلی منزلوں کی طرف کوچ کرجاتے ہیں۔۔۔
حددو اللہ کے خلاف سازش کی قیادت کے علاوہ موصوف پورے اسلامی معاشرے کو روشن خیال بنانے کی فکر رکھنتے ہیں اسی باعث ان کے نزدیک، گانا بجانا، رقص و سردوست جائز ہے پردہ جہالت کی نشانی ہے اگر مغرب پسند نہیں کرتا تو ہمیں پردہ پر اصرار نہیں کرنا چاہئے۔ ستر عورت کے حوالے سے ان کے خیالات میں تغیروتبدل آتا رہتا ہے بعض اوقات جذباتی ہو کر یہاں تک چلے جاتے ہیں کہ فقہ حنفی میں مرد و عورت کا ستر برابر ہے سوال کریں کہ یہ حنفی کی کونسی کتاب میں ہے تو جواب دل و دماغ کو باغ باغ کردیتا ہے فرماتے ہیں کہ اب کسی کتاب میں مرقوم نہیں، امام یوسف نے
بعد میں امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کی رائے بدل دی تھی۔
موصوف کا تازہ ترین فرمان ہے کہ قرآن کے تمام تر احکامات عملدرآمد کی خاطر نہیں۔ اکثر کا تعلق ریاست مدینہ کے دور سے تھا۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ سنت کو آپ نہیں مانتے بلکہ آپ کے نزدیک سنت صرف وہ ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک تواتر سے ثابت ہو یعنی سنت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم قابل اعتناء نہیں۔ قرآن پورے کا پورا قابل نفاذ نہیں حدیث کی ثقاہت پر آپ کو اعتراض ہے تو دین کہاں گیا؟؟؟۔۔۔ یہ دین تا قیامت رہنمائی کیسے کرے گا؟؟؟۔۔۔ سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چودہ سو برس بعد آپ پر یہ انکشاف کیسے ہوگیا کہ قرآن کے تمام احکامات قابل عمل نہیں اور پھر اس کا فیصلہ کون کرے گا کہ کون سا حکم آج کے لئے ہے کون سا متروک ہوچکا ہے موجودہ حکومت کے شارح دین کو جہاد سے بھی خاصی چڑ ہے ان کا نقطہ نظر ہے کہ طاقتور کو حق حاصل ہے کہ وہ کمزور کو دبالے لہذا افغانستان اور عراق پر امریکہ کا قبضہ جائز اور انکی مزاحمت ناجائز ہے۔۔۔
ایسی ہوا چلی کہ صرف کاکوشاہ المعروف غامدی اکیلے اپنی پانچوں تانگے کی سواریوں سمیت حکومت کی آنکھ کا تارہ بن کر طلوع ہوئے ہر ٹیلویژن اسکرین انہی کے رُخ (روشن) سے (منور) نظر آنے لگی۔ اشفاق احمد فو ہوئے تو پی ٹی وی نے ان کی جگہ بھی جناب غامدی کو لا بٹھایا جو بڑے دھڑلے سے اسلام کے پردے میں فکر غامدی کی ترویج میں مصروف ہیں سرکاری غیر سرکاری الیکڑانک میڈیا میں ان کا ڈنکا بجتا ہے اور رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ جو آج بھی نیٹ پر دستیاب ہے اس کا ایک ایک حرف عملدرآمد کے مراحل طے کرتا ہوا نظر آرہا ہے۔۔
قصرابیض کے روسیاہ دین حنیف کا جس طرح سے حلیہ بگاڑ کر اسے اپنے معاشرے کے مطابق ڈھالنا چاہتے ہیں ماڈل میں کاکوشاہ کا مرکز روشن خیالی اس کے عین مطابق تشریحات گھڑتا چلا جا رہا ہے امریکیوں کو پردے سے چڑ ہے۔۔۔۔ فکر غامدی پردہ غیر ضروری فعل ہے۔۔۔
وائٹ ہاؤس کو جہاد سے دشمنی ہے۔۔۔۔ فکر غامدی کے لئے ایسی ایسی ناممکن العمل شرائط لگا کر جہاد کی راہ روک رہا ہے کہ جس کا کسی کو ماضی میں خیال بھی نہ گزرا ہوگا۔۔۔
صدر بش کو اسلام سے افغانستان اور عراق پر حملہ کی حمایت چاہئے۔۔۔۔فکر غامدی حدیث اور سنت کو غیر معتبر قرار دے کران کی راہ ہموار کر رہا ہے۔۔۔مغربی خبث باطن توہیں رسالت پر آمادہ ہے۔۔۔۔فکر غامدی توہیں رسالت کی سزا پر معترض ہے اور اہل مغرت کو اس کا حق دیتا ہے۔۔۔ امریکی بدمعاش مسلمان اور قرآن کا تعلق توڑنا اور تقدس ختم کرنا چاہتے ہیں۔۔۔۔فکر غامدی قرآن کے احکامات کو دور حاضر کے لئے ناقابل عمل قرار دیتا ہے۔۔۔مغربی صلیبی قرآن کے مقابلے میں جعلی کتاب لاتے ہیں۔۔۔فکر غامدی اسے ان کا حق مانتا ہے۔۔۔ اور اب امریکی حکمران پاکستان میں حدود قوانین کا خاتمہ چاہتے ہیں۔۔۔فکر غامدی کا سرخیل اس مہم کا نگران قرار پاتا ہے۔۔۔۔وہ مسلمان کے نصاب تعلیم میں غیر اسلامی کلچر داخل کرنا چاہتے ہیں یہ اسکولوں میں اسلامیات پڑھانے کی مخالفت کرتا ہے۔۔۔۔
کیا اب بھی یہ مان لیا جائے کہ فکر غامدی اور امریکی استعمار کی خواہشات میں مشترکات محض (اتفاق) ہے کی اب بھی اس دور کے فیضی کو شک کا فائدہ دیا جائے گا؟؟؟۔۔۔۔۔
کہیں ایسا تو نہیں کہ جناب غامدی صاحب قادیانیوں جیسے منکرین ختم نبوت ،سلمان رشدی اور تسلیمہ نسرین جیسے باغیانِ رسول اور ملعونوں کو مسلمان باور کرانااور دکھانا چاہتے ہیں اور یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ پاکستانی پارلیمنٹ نے قادیانیوں کو جو غیر مسلم اقلیت قرار دیا ہے، یہ فیصلہ دینا پارلیمنٹ کے دائرہ کار میں نہیں آتا تھا، اگر وہ یہی کہنا چاہتے ہیں تو یہ بات موصوف کے پیش نظر رہنی چاہئے کہ یہ فیصلہ صرف پاکستانی پارلیمنٹ کا نہیں ،بلکہ اگر انہیں قرآن و سنت سے کوئی علاقہ و تعلق ہے تو ان کو معلوم ہوگا کہ قرآن کریم کی ایک سو سے زائد آیات اور دو سو سے زائد احادیث مبارکہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ، اللہ کے آخری نبی ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد جو شخص نبوت کا دعویٰ کرے، وہ کافر و غیر مسلم ہے، اس کا اسلام اور مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں۔
اب اگر کوئی شخص قرآن و حدیث کے خلاف دعویٰ نبوت کرے اور اپنے تئیں ...نعوذباللہ... حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سمیت تمام انبیاء کرام علیہم السلام سے افضل و برتر کہے اور مسلمانوں کے جذبات سے کھیلے، قرآن و سنت، اسلامی اقدار اور شعائر اسلام کا مذاق اڑائے، بتلایا جائے کہ موصوف اس کو بھی مسلمان کہیں گے یا کافر؟
بہرحال غامدی صاحب! دنیا اور دنیا کے مفادات ایک نہ ایک دن ختم ہوجائیں گے اور ہمیں زندگی بھر کے لمحے، لمحے کا حساب دینا ہوگا، ہماری زبان اور قلم سے جو کچھ نکلا ہے، ہمیں اس کا حساب دینا ہوگا، کہیں ایسا نہ ہو کہ ہماری یہ تحریریں ہمارے گلے کا طوق ثابت ہوں اور ہمیں بھی ان لوگوں کی ہمنوائی میں ان کے ساتھ کردیا جائے جو آقائے دوعالم صلی اللہ علیہ وسلم کے باغی تھے یا ہیں۔ فاعتبروا یا اولی الابصار۔
وصلی اللّٰہ تعالیٰ علی خیر خلقہ محمد وآلہ واصحابہ اجمعین

برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد

برصغیر میں انگریزوں کے دو منتخب احمد



انگریزوں کو  برصغیر میں اپنا قبضہ جمانے کے دوران  سب ذیادہ علما اور دیندار طبقے کی طرف سےمزاحمت کا سامنا  کرنا پڑا، اس لیے انہوں نے  عوام میں دین  اسلام کے بارے میں کنفیوزین پیدا کرنے والے لوگوں کی بھرپور سپورٹ کی  ۔ اور چند لوگوں کو خصوصی طور پر منتخب کیا گیا۔ ایک  مرزا احمد کو کچہری سے اٹھایا منصب نبوت پر بٹھا دیا، ایک اور سید احمد کو کلرکی کے درجے سے ترقی دی  اور سرسید احمدخان بنا دیا۔ مرزا غلام قادیانی نے جھوٹی نبوت کا سہارا لے کر جہاد کا انکار کیا اور سر سید احمد خان  نے نا صرف  احادیث،  معجزات‘ جنت‘ دوزخ اور فرشتوں کے انکار پر گمراہ کن تفسیر اور کتابیں  لکھیں بلکہ برصغیر کے مسلمانوں کو دینی تعلیم کے مقابلے میں فرنگی نظام تعلیم سے متعارف کروایا۔ دونوں انگریزوں سے خوب دادِ شجاعت لے کر دنیاوی مفاد حاصل کئے اور اپنی آخرت کو تباہ وبرباد کرگئے  ۔
مرز ا قادیانی  کی " مذہبی"خدمات اور سرسید کی تعلیمی  اور سیاسی خدمات  کا تذکرہ تو ہم چند پچھلی تحریروں میں کرچکے ۔ہمارا آج کا موضوع سرسید احمد خان کی روشن خیال فرنگی اسلام کے لیے دی گئی خدمات ہیں۔موضوع تفصیل مانگتا ہے لیکن ہم کوشش کریں گہ کہ ضرورت کی ہی بات کی جائے۔
سرسید کے مذہب پر ایک نظر

تاریخی واقعات شاہد ہیں کہ انگریزوں نے مرزا غلام احمد قادیانی اور سرسید احمد خان سے وہ کام لئے جو وہ اپنے ملکوں کی ساری دولت خرچ کر کے بھی نہیں کر سکتے تھے۔  سرسید کا عقیدہ کیا تھا ؟   مرزاقادیانی لکھتا ہے کہ سرسید احمد  تین باتوں میں مجھ سے متفق ہے۔
•  ایک یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام بغیر باپ کے پیدا نہیں ہوئے‘ بلکہ معمول کے مطابق ان کا باپ تھا۔ (واضح رہے کہ عیسائیوں کے ایک فرقے کا بھی یہ عقیدہ ہے کہ مریم علیہا السلام کے یوسف نامی ایک شخص سے تعلقات تھے جس کے نتیجہ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام شادی سے قبل پیدا ہوئے۔ (نعوذ باللہ من ذلک) 
• دوسرے یہ کہ عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر نہیں اٹھایا گیا بلکہ اس سے ان کے درجات بلند کرنا مراد ہے۔ 
• تیسرے یہ کہ نبی آخر الزمان حضرت محمد کو روح مع الجسد معراج نہیں ہوئی‘ بلکہ صرف ان کی روح کو معراج ہوئی ہے۔

                                   سرسید کو موجودہ دور کا روشن خیال طبقہ نئے دور کا مجدّد اور مسلمانوں کی ترقی کا راہنما سمجھتے ہیں، ذیل میں سرسید کے افکار پر  کچھ تفصیل پیش خدمت ہے۔ یہ پڑھنے کے بعد آپ کےلیے یہ سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ سرسید بھی حقیقت میں  معتزلہ کے اسی سلسلہ کا فرد تھا اوراور اس کے روحانی شاگرد’ روشن خیال مذہب کے موجودہ داعی ڈاکٹر، فلاسفر، دانشور، پروفیسر ٹائپ لوگ  بھی معتزلہ کے اسی مقصد  یعنی دین میں شکوک وشبہات پیدا کرنے اور لوگوں کا ایمان چوسنے کا مشن جاری رکھے ہوئے ہیں۔ اور ہمارے معاشرہ کا تھوڑا پڑھا لکھا اور آزاد خیال طبقہ ان کو اسلام کا اصل داعی سمجھ کر انہی کی تعلیمات کے مطابق زندگی گزار رہا ہے۔

 
1 - سرسید کی چند تصنیفات :۔
۔سرسید نے اسلام کے نام پر بہت سارے مضامین‘ مقالات اور کتب تحریر کیں۔ ایک خلق الانسان( انسانی پیدائش سے متعلق لکھی ‘ جس میں ڈارون کے اس نظریہ کی تصدیق وتوثیق کی گئی ہے کہ انسان پہلے بندر تھا پھر بتدریج انسان بنا‘ یوں قرآن وسنت کی نصوص کا منکر ہوا)

  اسباب بغاوت ہند (۱۸۵۷ء میں مسلمانوں کے انگریزوں کے خلاف جہاد کو بغاوت کا نام دیا‘ اور انگریز سامراج کے مخالف علما اور مجاہدین پر کھلی تنقید کی)، تفسیر القرآن (پندرہ پاروں کی تفسیر لکھی ہے جو درحقیقت تحریف القرآن ہے۔  سرسید لکھتے ہیں
”میں نے بقدر اپنی طاقت کے خود قرآن کریم پر غور کیا اور چاہا کہ قرآن کو خود ہی سمجھنا چاہئے“۔ (تفسیر القرآن: ۱۹ ص:۲) 
چنانچہ سرسید نے اسلام کے متوارث ذوق اور نہج سے اتر کر خود قرآن پر غور کیا اور اسلام کے نام پر اپنے ملحدانہ نظریات سے فرنگیانہ اسلام کی عمارت تیار کرنا شروع کی‘ جس میں نہ ملائکہ کے وجود کی گنجائش ہے‘ نہ ہی جنت ودوزخ کا کہیں نشان ہے اور نہ جنات اور ابلیس کے وجود کا اعتراف ہے اور معجزات وکرامات تو ان کے نزدیک مجنونہ باتیں ہیں۔
خود سرسید کے پیرو کار ومعتقد مولانا الطاف حسین حالی‘ مؤلف مسدس (وفات دسمبر ۱۹۱۴ء) تحریر فرماتے ہیں کہ:
” سرسید نے اس تفسیر میں جابجا ٹھوکریں کھائی ہیں اور ان سے رکیک لغزشیں سرزد ہوئی ہیں“۔
 (حیات جاوید مطبوعہ آگرہ ص:۱۸۴)
                     
2 - سرسید کی عربی شناسی:۔
غزوہٴ احد میں نبی اکرم ا کے سامنے کا ایک دانت مبارک شہید ہوا تھا‘ چنانچہ علامہ ابن کثیررحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:۔
”وان الرباعیة التی کسرت لہ علیہ السلام ہی الیمنیٰ السفلیٰ“ (السیرة النبویة ج:۳‘ ص:۵۷)
ترجمہ:․․․”نبی علیہ السلام کے سامنے کا داہنا نچلا دانت مبارک شہید ہوا تھا“۔
فن تجوید وقرأت کے لحاظ سے سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک کو رباعی کہتے ہیں‘ جیسے لغت کے امام ابن منظور افریقی لکھتے ہیں:
رباعی کا لفظ ثمانی کی طرح ہے یعنی سامنے کے چار دانتوں میں سے ایک۔(لسان العرب ج:۸‘ ص:۱۰۸)

سرسید نے رباعی کا لفظ دیکھ کر اسے اربع (چار) سمجھ لیا ہے اور حکم لگا دیا کہ آپ کے چار دانت شہید ہوئے تھے“۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں: 
”آنحضرت کے چار دانت پتھر کے صدمہ سے ٹوٹ گئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۴‘ص:۶۴) 
قارئین ملاحظہ فرمائیں کہ جو شخص رباعی اور اربعہ میں فرق نہیں کرسکا اس نے  قرآن کی تفسیر لکھنے میں کیا گل کھلائے ہوں گے۔
3 - قرآن کی من مانی تشریحات :۔
سرسید نے معتزلی سوچ کے مطابق  دین اسلام کو عقل کی ترازو میں تول کر مسلماتِ دین کا انکار کیا اور قرآن کریم میں جہاں معجزات یا مظاہر قدرت خداوندی کا ذکر ہے‘ اس کی تاویل فاسدہ کرکے من مانی تشریح کی ہے۔
پہلے پارے میں اللہ تعالیٰ نے بیان فرمایاہے کہ:” یہود سے جب عہد وپیماں لیا جارہا تھا تو اس وقت کوہِ طور کو ان کے سروں پر اٹھا کر لاکھڑا کردیا تھا“۔ جسے سارے مفسرین نے بیان کیا ہے‘ سرسید اس واقعہ کا انکار کرتاہے اور لکھتاہے:
”پہاڑ کو اٹھاکر بنی اسرائیل کے سروں پر نہیں رکھا تھا‘ آتش فشانی سے پہاڑ ہل رہا تھا اور وہ اس کے نیچے کھڑے رہے تھے کہ وہ ان کے سروں پر گر پڑے گا“۔ 

سرسید نہ صرف آیت کی غلط تاویل کرتا ہے بلکہ نہایت ڈھٹائی کے ساتھ مفسرین کا مذاق بھی اڑاتاہے۔ وہ لکھتاہے:
”مفسرین نے اپنی تفسیروں میں اس واقعہ کو عجیب وغریب واقعہ بنادیا ہے اور ہمارے مسلمان مفسر عجائباتِ دور ازکار کا ہونا مذہب کا فخر اور اس کی عمدگی سمجھتے تھے‘ اس لئے انہوں نے تفسیروں میں لغو اور بیہودہ عجائبات (یعنی معجزات) بھر دی ہیں‘ بعضوں نے لکھا ہے کہ کوہِ سینا کو خدا ان کے سروں پر اٹھا لایا تھا کہ مجھ سے اقرار کرو نہیں تو اسی پہاڑ کے تلے کچل دیتاہوں‘ یہ تمام خرافات اور لغو اور بیہودہ باتیں ہیں“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص۹۷تا۹۹)

کوئی سر سید سے یہ پوچھے کہ آتش فشانی اور پہاڑ کے لرزنے کا بیان اس نے کس آیت اور کس حدیث کی بناء پر کیا ہے۔  اس کے پاس کوئی نقلی ثبوت نہیں ہے یہ اس کی اپنی عقلی اختراع ہے ہم اس کے جمہور مفسرین کے مقابلے میں ایسی عقل پر دس حرف بھیجتے ہیں۔
 بریں عقل ودانش بباید گریست
4 -  جنت ودوزخ کا انکار :۔
تمام مسلمانوں کا متفقہ عقیدہ ہے کہ جنت ودوزخ حق ہیں اور دونوں پیدا کی جاچکی ہیں۔ خود قرآن پاک سے یہ ثابت ہے ارشاد خداوندی ہے:
”وسارعوا الی مغفرة من ربکم وجنة عرضہا السموات والارض اعدت للمتقین“ (آل عمران:۱۳۳)
ترجمہ:․․․”اور اپنے رب کی بخشش کی طرف دوڑو اور جنت کی طرف جس کی چوڑائی آسمانوں اور زمین جتنی ہے اور پرہیزگاروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“ ۔
 دوزخ کے پیدا کئے جانے بارے میں ارشاد خداوندی ہے:
”فاتقوا النار التی وقود ہا الناس والحجارة اعدت للکافرین“ (البقرہ:۲۴)
ترجمہ:․․․”پس ڈرو اس آگ سے جس کا ایندھن لوگ اور پتھر ہوں گے جو کافروں کے لئے تیار کی جاچکی ہے“۔ 

سرسید جنت ودوزخ دونوں کے وجود کا انکار کرتا ہے وہ لکھتا ہے:
 ”پس یہ مسئلہ کہ بہشت اور دوزخ دونوں بالفعل مخلوق وموجود ہیں‘ قرآن سے ثابت نہیں ۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۳۰) 
وہ مزید لکھتاہے:
”یہ سمجھنا کہ جنت مثل باغ کے پیدا کی ہوئی ہے‘ اس میں سنگ مرمر کے اور موتی کے جڑاؤ محل ہیں۔ باغ میں سرسبز وشاداب درخت ہیں‘ دودھ وشراب وشہد کی نالیاں بہہ رہی ہیں‘ ہرقسم کا میوہ کھانے کو موجود ہے․․․ایسا بیہودہ پن ہے جس پر تعجب ہوتا ہے‘ اگر بہشت یہی ہو تو بے مبالغہ ہمارے خرابات (شراب خانے) اس سے ہزار درجہ بہتر ہیں“۔ (نعوذ باللہ) ایضاً ج:۱‘ص:۲۳)
قرآن میں جنت کی نعمتوں کا تذکرہ کسی قرآن پڑھنے والے سے مخفی نہیں، مگر سرسید نے  نا صرف ان کا  صاف  انکار کیا  بلکہ مذاق بھی اڑایا اور شراب خانوں کو جنت سے ہزار درجے بہتر قرار دیا۔

5 - بیت اللہ شریف کے متعلق موقف :۔
بیت اللہ شریف بارے کی عظمت کے بارے میں قرآن وحدیث میں کافی تذکرہ موجود ہے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: 
یعنی سب سے پہلا گھرجو لوگوں کے لئے وضع کیا گیا ہے یہ وہ ہے جو مکہ میں ہے۔ بابرکت ہے اور جہاں والوں کے لئے راہنما ہے۔  (آل عمران:۹۶)
ترجمہ:․․․” اللہ تعالیٰ نے کعبہ کو جو کہ گھر ہے بزرگی اور تعظیم والا‘ لوگوں کے لئے قیام کا باعث بنایاہے“ ۔ (المائدہ:۹۷)
علامہ اقبال نے اسی کی تشریح میں فرمایا ہے:
دنیا کے بتکدوں میں پہلا وہ گھر خدا کا
ہم اس کے پاسباں ہیں وہ پاسباں ہمارا

اب ذرا کلیجہ تھام کر سرسید کی ہرزہ سرائی کعبۃ اللہ کے بارے میں ملاحظہ فرمائیں۔ نقل کفر کفر نباشد ۔ اپنی تحریف القرآن میں لکھتاہے:
”جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ اس پتھر کے بنے ہوئے چوکھونٹے گھر میں ایسی متعدی برکت ہے کہ جہاں سات دفعہ اس کے گرد پھرے اور بہشت میں چلے گئے یہ ان کی خام خیالی ہے․․․ اس چوکھونٹے گھر کے گرد پھر نے سے کیا ہوتا ہے‘ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں تو وہ کبھی حاجی نہیں ہوئے“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۲۱۱و۲۵۱)
 مزید لکھتاہے:
”کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنا اسلام کا کوئی اصلی حکم نہیں ہے “۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ ص:۱۵۷)
خانہ کعبہ کے گرد طواف کے مقدس عمل کو سرسید  کا ”سات دفعہ اس کے گرد پھرنا“ پھر خدا کے اس عظیم اور مقدس گھر کو انتہائی ڈھٹائی اور بے غیرتی کے ساتھ ”چوکھونٹا گھر“ کہنا اور آگے خباثت کی انتہا کرتے ہوئے یہ کہنا کہ اس کے گرد تو اونٹ اور گدھے بھی پھر تے ہیں‘ کیا وہ حاجی بن گئے؟ پھر  نماز میں خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنے کے خلاف یہ زہر افشانی کرنا کہ یہ اسلام کا اصلی حکم نہیں ہے‘  کیا  یہ بکواسات  کیا کوئی صاحب ایمان کرسکتا ہے ؟ 
دوسرے پارہ کے شروع میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایاہے:
 ”سیقول السفہاء الخ“ ”اب بہت سارے بیوقوف کہیں گے کہ اللہ تعالیٰ نے بیت المقدس سے خانہ کعبہ کی طرف منہ کرکے نماز پڑھنے کا حکم کیوں دیا؟“
 اس آیت کی رو سے جو لوگ خانہ کعبہ کی طرف منہ کرنا نہیں مانتے وہ بیوقوف ہیں اور سرسید تمام بیوقوفوں کا سردار۔

6 - سرسید فرشتوں کے وجود کا منکر
فرشتوں کا مستقل خارجی وجود قرآن وحدیث سے صراحۃ ثابت ہے اور فرشتوں کا اس طرح وجود ماننا اسلام کے بنیادی عقائد میں سے ہے‘ ان کے وجود کو مانے بغیر کوئی مسلمان نہیں کہلا سکتا۔قرآن پاک میں ہے کہ: 
فرشتے خدا کی ایسی مخلوق ہیں جو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی نہیں کرتے اور جس کام کا حکم دیا جاتاہے اس کو بجالاتے ہیں (التحریم:۶)
دوسری جگہ مذکور ہے
پھر یہی فرشتے حضرت لوط علیہ السلام کے پاس پہنچے اور قوم لوط پر عذاب ڈھانے لگے۔ (الحجر:۵۸تا۷۷)

ان تمام آیات اور روایات سے معلوم ہوا کہ فرشتوں کا مستقل خارجی وجود ہے‘ مگر سرسید اس کے منکر ہیں وہ لکھتے ہیں کہ:
” قرآن مجید سے فرشتوں کا ایسا وجود جیسا مسلمانوں نے اعتقاد کررکھا ہے ثابت نہیں ہوتا“۔ (تفسیر القرآن ج:۱‘ص:۴۲) 
آگے لکھتا ہے
”اس میں شک نہیں کہ جو حضرت ابراہیم علیہ السلام کے پاس آئے تھے‘ انسان تھے اور قوم لوط کے پاس بھیجے گئے تھے۔علماء مفسرین نے قبل اس کے کہ الفاظ قرآن پر غور کریں یہودیوں کی روایتوں کے موافق ان کا فرشتہ ہونا تسلیم کرلیا ہے‘ حالانکہ وہ خاصے بھلے چنگے انسان تھے۔ (ایضاً ج:۵‘ص:۶۱)
اس طرح قرآن پاک اور احادیث طیبہ یہ بات موجود ہے کہ  مختلف غزوات کے موقع پر اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں کی مدد کے لئے فرشتوں کو بھیجا ہے جیسا کہ آیت ولقد نصرکم اللہ ببدر وانتم اذلة“ (آل عمران:۱۲۳) میں مذکور ہے۔ سرسید اس کا منکر ہے وہ اس آیت کے تحت لکھتاہے۔
” بڑا بحث طلب مسئلہ اس آیت میں فرشتوں کا لڑائی میں دشمنوں سے لڑنے کے لئے اترناہے‘ میں اس بات کا بالکل منکر ہوں‘ مجھے یقین ہے کہ کوئی فرشتہ لڑنے کو سپاہی بن کریا گھوڑے پر چڑھ کر نہیں آیا‘ مجھ کو یہ بھی یقین ہے کہ قرآن سے بھی ان جنگجو فرشتوں کا اترنا ثابت نہیں“۔
 (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ص:۵۲)

7 - سرسید جبرائیل امین کا  منکر :۔
قرآن پاک میں حضرت جبرائیل علیہ السلام کا ذکر ہے‘ 
ترجمہ:․․․”جو کوئی مخالف ہو اللہ کا یا اس کے فرشتوں کا یا اس کے پیغمبروں کا یا جبرائیل کا اور میکائیل کاتو اللہ تعالیٰ ایسے کافروں کا مخالف ہے“۔(البقرہ:۹۸)
اسی طرح  کئ احادیث  میں ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کبھی انسانی شکل میِں بار گاہ نبوی میں تشریف لاتے ‘چنانچہ مشکوٰة کی پہلی حدیث ”حدیث جبرائیل“ میں جب سوالات کرنے کے بعد حضرت جبرائیل علیہ السلام تشریف لے گئے تو آپ ا نے فرمایا :”فانہ جبرئیل اتاکم یعلمکم دینکم“ (یہ حضرت جبرائیل علیہ السلام تھے‘ تم کو تمہارا دین سکھانے آئے تھے) (مشکوٰة: کتاب الایمان)
سرسید حضرت جبرائیل علیہ السلام کے وجود کا منکر ہے۔ وہ لکھتاہے:
ہم بھی جبرائیل اور روح القدس کو شئ واحد تجویز کرتے ہیں‘ مگر اس کو خارج از خلقتِ انبیاء جداگانہ مخلوق تسلیم نہیں کرتے‘ بلکہ اس بات کے قائل ہیں کہ خود انبیاء علیہم السلام میں جو ملکہ نبوت ہے اور ذریعہ مبدء فیاض سے ان امورکے اقتباس کا ہے جو نبوت یعنی رسالت سے علاقہ رکھتے ہیں‘ وہی روح القدس ہے اور وہی جبرائیل ہے“۔ (تفسیر القرآن از سرسید ج:۲‘ ص:۱۵۶‘ ج:۱‘ ص:۱۸۱‘ ۱۲۲‘ ۱۲۹‘ ۱۷۰)
اس عبارت میں سرسید نے اس بات کا انکار کیا کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام کوئی خارجی وجود ہے ‘ بلکہ ان کے نزدیک یہ رسول اکرم  کی طبیعت میں ودیعت کردہ ایک ملکہٴ نبوت کا نام ہے۔
8 - سرسید کا واقعہٴ معراج سے انکار:۔
رسول اللہ  کے معجزات میں سے ایک معجزہ واقعہٴ معراج ہے ۔سرسید  نےیہاں بھی عقل لڑائی مشکرکین مکہ کی طرح حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنے جسم مبار کے ساتھ سات آسمانوں پر جانا اسکی عقل میں نہ آسکا اور وہ انکار کرگیا ۔ اپنی تفسیرالقرآن ج :۲ ص: ۱۳۰ پرلکھتا ہے:
”ہماری تحقیق میں واقعہ معراج ایک خواب تھا جو رسول اللہ نے دیکھا تھا"
حقیقت میں معجزہ کہتے ہی اسکو ہیں جسکو سمجھنے سے عقل عاجز ہو۔ اگر اسے خواب یا تصور کا واقعہ قرار دیں تو معجزہ نہیں کہلا یا جاسکتا‘ کیونکہ خواب اور تصور میں کوئی بھی شخص اس قسم کا واقعہ دیکھ سکتاہے۔  اس لیے آنحضرت کا واقعہ معراج تب معجزہ بنے گا جب ہم یہ تسلیم کرلیں کہ آنحضرت کو معراج روح مع الجسد ہوئی تھی یعنی جسم اور روح دونوں کو معراج ہوئی تھی‘ اور اسی بات پر امت کا اجماع چلا آرہا ہے۔ روایات میں آتاہے کہ واقعہ معراج کا سن کر کفار ومشرکین مکہ آپ کے ساتھ حجت بازی کرنے لگے۔ اگر واقعہ معراج خواب کا واقعہ ہوتا تو کفار ومشرکین کبھی آپ  کے ساتھ حجت بازی نہ کرتے۔
9 - جنات وشیاطین کے وجود کا انکار :۔
جنات وشیاطین کا وجود قرآن وحدیث سے ثابت ہے اور ایک راسخ العقیدہ مسلمان کے لئے اس میں شک وشبہ کی گنجائش نہیں‘ مگر سرسید اس کا انکار کرتا ہے‘ وہ حضرت سلیمان علیہ السلام اور ان کے ماتحت جنات کے کام کرنے کے قرآنی واقعہ پر تبصرہ کرتا ہے:
”ان آیتوں میں ”جن“ کا لفظ آیا ہے‘ اس سے وہ پہاڑی اور جنگلی آدمی مراد ہے‘ جو حضرت سلیمان علیہ السلام کے ہاں بیت المقدس بنانے کا کام کرتے تھے اور جن پر بسبب وحشی اور جنگلی ہونے کے جو انسانوں سے جنگلوں میں چھپے رہتے تھے اور نیز بسبب قوی اور طاقتور اور محنتی ہونے کے ”جن“ کا اطلاق ہوا ہے پس اس سے وہ جن مراد نہیں جن کو مشرکین نے اپنے خیال میں ایک مخلوق مع ان اوصاف کے جو ان کے ساتھ منسوب کئے ہیں‘ ماناہے اور جن پر مسلمان بھی یقین کرتے ہیں۔ (تفسیر القرآن ج: ۳‘ ص: ۶۷) 
اس طرح سرسید  شیطان کا الگ مستقل وجود تسلیم نہیں کرتا‘ بلکہ انسان کے اندر موجود شرانگیز صفت کو شیطان قرار دیتاہے 
آگے  لکھتاہے: ”
انہی قویٰ کو جو انسان میں ہے اور جن کو نفس امارہ یا قوائے بہیمیہ سے تعبیر کرتے ہیں‘ یہی شیطان ہے“۔ (ج ۳ ص۴۵ پ)

سرسید کے اعتزالی عقائد و نظریات کا مکمل احاطہ کیا جائے تو ایک کتاب تیار ہوسکتی ہے ، ہم نے اس کے چند گمراہ افکار پر روشنی ڈالی ہے۔ حقیقت میں سرسید اور ان جیسے دیگر روشن خیالوں کی فکری جولانیوں کودیکھ کر یہی کہا جاسکتاہے کہ:
ناطقہ بگریباں ہے اسے کیا کہئے؟ 
خامہ انگشت بدنداں ہے اسے کیا لکھئے؟
مسلمانوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ موجودہ دور کے ان معتزلہ کے افکار ونظریات کو پہچان کر اپنے ایمان وعمل کو ان کی فریب کاری سے بچائیں اور جو سادہ لوح مسلمان ان کے شکنجہ میں آچکے ہیں ان کے بارے میں فکر مند ہوکر ان کو راہِ راست پر لانے کی کوشش کریں.

پاکستان کیوں ٹوٹا ؟

پاکستان کی تاریخ یوں تو ہمہ وقت کسی نہ کسی “نازک موڑ” پر کھڑی رہتی ہے، جس کا آمروں نے خوب فائدہ اٹھایا اور وہ اپنی حکومتوں کو اس جملے کی گردان کے ساتھ طول دیتے رہے کہ “پاکستان اس وقت تاریخ کے نازک موڑ پر کھڑا ہے” لیکن حقیقتاً قومی تاریخ میں اگر کوئی نازک موڑ تھا تو وہ 1971ء کا سال تھا جس سال پاکستانی فوج و سیاست دانوں کے عاقبت نااندیشانہ فیصلوں نے قائد کے پاکستان کو دو لخت کر دیا۔
جس کسی نے بھی حمودالرحمٰن کمشن کی رپورٹ پڑھی ہے وہ جانتا ہے کہ اس میں سقوط ڈھاکہ کا ذمہ دار خالصتاً فوجی قیادت کو ٹھہرایا گیا تھا۔
  قائد کے پاکستان کے ٹوٹنے کی وجوہات زیر غور آتی ہیں اور بالآخر “رات گئی بات گئی” کی طرح ختم ہو جاتی ہیں لیکن ہم نے کبھی ان وجوہات سے سبق حاصل کرنے اور موجودہ صورتحال میں انہی غلطیوں کو دہرانے سے بچنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی اور بہت ساری باتیں ایسی بھی ہیں جنہیں بہت کم زیر غور لایا جاتا ہے۔ اب آزادئ اظہار رائے کا دور ہے، بہت سارے پہلوؤں پر کھلے عام بحث کی جا رہی ہے ورنہ کچھ عرصہ قبل تک عام آدمی کے ذہن میں تصور ہی یہی تھا کہ بنگالیوں نے پاکستان سے غداری کی جس کے نتیجے میں پاکستان ٹوٹا۔

اس وطن کے قیام میں لاکھوں لوگوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا اور پھر 1971ء میں اس کو بچانے کے لیے بھی ہزاروں لوگوں نے اپنی جانیں دیں لیکن دلوں میں موجود نفرتوں کا لاوا سب کچھ جلا کر راکھ کر گیا۔ حکمرانوں کی عاقبت نااندیشی، فوج کی ہر معاملے کو بزور قوت حل کرنے کی پالیسی، جمہوری اقدار کی کھلی خلاف ورزی اور ذرائع ابلاغ کی جانب سے عوام کو حقائق سے بے خبر رکھنے کی حکمت عملی نے سب کچھ خاک میں ملا دیا.71ء کی جنگ کے دوران پاکستان کا سرکاری میڈیا “سب اچھاہے” کہ راگ الاپ رہا تھا اور ٹائیگر نیازی کے یہ بیان بھی پیش ہوتے تھے کہ “ڈھاکہ فتح کرنے کے لیے دشمن کو میری لاش پر سے گزرنا ہوگا”۔ دوسری جانب مغربی پاکستان کی عوام کو حقیقت سے بالکل بے خبر رکھا گیا. میں کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی پاکستان کے سابق نائب امیر، جو ڈھاکہ میں جماعت کے امیر بھی رہ چکے ہیں، خرم مراد صاحب کی خود نوشت “لمحات” پڑھ رہا تھا۔ مرحوم کیونکہ خود ڈھاکہ میں رہ چکے تھے اور اُن ایام کو اپنی نظروں سے دیکھ چکے تھے جس میں یہ عظیم سانحہ رونما ہوا اس لیے ان کی کتاب اس حوالے سے بہت اہمیت کی حامل ہے۔
ان کی کتاب “لمحات” اور دیگر چند کتب پڑھ کر میں اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا سب سے اہم سبب یہاں کی عسکری و سیاسی قیادت کا غیر جمہوریت پسندانہ رویہ تھا۔ اس کے علاوہ اور بھی دیگر کئی وجوہات ہیں، جن کا ذکر یہاں کروں گا۔
مشرقی پاکستان کے الگ ہونے کی چند انتہائی بنیادی وجوہات تھیں۔ ایک آبادی کے لحاظ سے وہ زیادہ بڑا علاقہ تھا جس کی وجہ سے کہ مغربی پاکستان کی نوکر شاہی اور عسکری قیادت کو یہ “خطرہ” لاحق ہو گیا کہ اگر سیاسی نظام کو جمہوری انداز میں چلنے دیا گیا تو بنگالی برسر اقتدار رہیں گے۔ اسی وجہ سے بنگال سے تعلق رکھنے والے وزیر اعظم خواجہ ناظم الدین کو  غلام محمد نے برطرف کر کے پاکستان کے سیاسی نظام میں ایسی بدعت کا آغاز کیا جس کا خمیازہ بعد میں آنے والی کئی جمہوری حکومتیں بھگتتی رہیں۔ مغربی پاکستان میں دارالحکومت کراچی میں بیٹھ کر ایسی نوکر شاہی اور عسکری قیادت، جس کا 90 فیصد مغربی پاکستان کے باشندوں پر مشتمل ہو، حکومت چلانا کوئی آسان کام نہ تھا۔ فوج اور نوکر شاہی تو کسی کی دال نہ گلنے دیتی، یہ تو خواجہ ناظم الدین جیسے شریف النفس انسان تھے، جن کو ہٹانے سے جمہوری حکومتوں کے قتل کا سلسلہ چل نکلا۔ رہی سہی کسر محمد علی بوگرہ کی حکومت کے خاتمے نے پوری کر دی جن کے دور میں دستور ساز اسمبلی ایک ایسی ترمیم منظور کرنے جا رہی تھی جس میں گورنر کے اختیارات کو کم کیا جانا تھا لیکن غلام محمد نے پہلے اسے برطرف کر دیا، یوں مطلق العنان آمریت کی مضبوط بنیاد ڈال گئے۔
دوسری وجہ یہ تھی کہ پاکستان کے یہ دونوں بازو ہزار میل کے فاصلے پر صرف اور صرف اسلام کے رشتے سے جڑے تھے۔ جب قیام پاکستان کے بعد حکمرانوں نے اسلام میں دلچسپی ہی نہ دکھائی تو پھر یہ رشتہ بے معنی تھا۔ وہاں سوشلسٹ اور سیکولر نظریات پھلتے پھولتے رہے اور انہی سے بنگلہ قوم پرستی نے بھی جنم لیا تو یہ جلتی پر تیل والا کام ہو گیا۔
تیسری اہم وجہ ہماری قیادت کا بے وجہ جذباتی پن تھا جس میں بنگالی کو اردو کے ساتھ قومی زبان کا درجہ نہ دینا تھا۔ اس بے جا اصرار کے نتیجے میں بنگالی قوم پرستوں کو عوام کے جذبات سے کھیلنے کا موقع ملا۔ “سرکاری زبان صرف اردو ہوگی” کا نعرہ تو لگا لیا گیا لیکن یہ محض جذباتی نعرہ تھا اور نتیجہ وہی ہوا کہ اردو آج تک سرکاری زبان نہ بن سکی اور بنگالی بولنے والے بھی ہم سے الگ ہو گئے۔ اس خواہ مخواہ کی کشمکش نے مغربی اور مشرقی پاکستان کے باشندوں کے درمیان نفرت کے بیج بو دیے اور زبردست انتشار پیدا ہوا جو بالآخر سقوط مشرقی پاکستان پر منتج ہوا۔
پھر ماحول ایسا تخلیق کر دیا گیا کہ جس میں مغربی پاکستان کے باشندوں کے بنگال کے باشندوں کے مقابلے میں احساس تفاخر و برتری تھا اور وہ انہیں کم تر سمجھتے تھے۔ بنگال کے باشندوں کی ذہانت، حب الوطنی، قوت اور صلاحیت کو شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا اور انہیں دیگر قوموں کے مقابلے میں آگے بڑھنے کے مواقع نہیں دیے جاتے۔

چوتھی اہم وجہ وسائل کی تقسیم میں زبردست عدم توازن تھا اور یہ تک کہا گیا کہ “مغربی پاکستان کی سڑکوں سے پٹ سن کی خوشبو آتی ہے” لیکن اس کے باجود 25 سالوں میں مشرقی پاکستان میں جس بڑے پیمانے پر صنعتی ترقی ہوئی۔ اس لیے یہ کہنا تو بالکل درست نہیں ہوگا کہ اقتصادی لحاظ سے بنگال کا علاقہ تقسیم ہند کے بعد مزید کمزور ہو گیا البتہ صوبوں کے درمیان وسائل کی یکساں تقسیم کا مسئلہ اُس وقت بھی آج ہی کی طرح گمبھیر تھا۔
پانچویں ایک اہم وجہ، جس پر کم دھیان دیا جاتا ہے، دارالحکومت کا کراچی سے اسلام آباد منتقل کیا جانا تھی۔ کراچی پاکستان کی تمام اقوام کا شہر تھا جو حقیقتاً پاکستانیت کا مظہر بھی تھا۔ اس کے مقابلے میں جس نئے دارالحکومت کا انتخاب کیا گیا وہ فوج کے صدر دفاتر (جی ایچ کیو) کے دامن میں واقع تھا اور یوں سیاست دانوں پر واضح کر دیا گیا کہ اب حکومت فوج کی گود میں بیٹھ کر چلے گی۔ دارالحکومت کی کراچی سے اسلام آباد منتقلی نے بھی بنگالیوں کے ذہنوں پر بہت کچھ واضح کر دیا کہ ان کے اقتدار میں آنے کے جمہوری حق کو ختم کرنے کے لیے ایک اور چال چلی جا چکی ہے۔
چھٹی سب سے بڑی اور اہم وجہ 1970ء کے انتخابات کے بعد فاتح عوامی لیگ کی اقتدار میں آنے کی تمام راہیں مسدود کرنا تھی جس کی مغربی پاکستان کی فوجی و سیاسی قیادت نے مل کر بھرپور کوشش کی۔ گو کہ 1970ء کے انتخابات میں بھی شیخ مجیب الرحمٰن نے علیحدگی کا نعرہ نہیں لگایا تھا کہ بلکہ انہوں نے “چھ نکات بھی نافذ ہوں گے اور پاکستان بھی ایک رہے گا” کا بیان تک دیا۔ چاہے ان کے ارادے کچھ بھی ہوں، لیکن ان کے اس بیان سے اتنا اندازہ ضرور ہوتا ہے کہ مشرقی پاکستان کے عوام میں اس وقت بھی پاکستان مخالف جذبات اتنے زیادہ نہیں تھے، وہ مغربی پاکستان کی فوج اور افسر شاہی کے ضرورخلاف تھے اور اپنا آئینی و قانونی حق ضرور مانگتے تھے لیکن وہ وفاق پاکستان کے ہر گز خلاف نہ تھے یہی وجہ ہے تھی کہ مجیب الرحمٰن کو اس طرح کے بیانات بھی جاری کرنا پڑے ۔
25 مارچ 1971ء کو مشرقی پاکستان میں فوجی آپریشن سے قبل عوامی لیگ کی مرکزی ورکنگ کمیٹی کے اجلاس میں پاکستان سے علیحدگی کے حوالے سے بحث کے بعد بھاری اکثریت نے پاکستان کے ساتھ رہنے اور اسے برقرار کھنے پر رائے دی۔ اس میں صرف عوامی لیگ کی حامی طلبہ تنظیم چھاترو لیگ واحد تنظیم تھی جس کی مرکزی کمیٹی نے پاکستان کے حق میں رائے نہ دی۔ اس لیے یہ کہنا کہ وہ آپریشن کے آغاز سے قبل ہی علیحدگی چاہتے تھے غلط تھا۔ اوپر سے انتخابات کے بعد ذوالفقار علی بھٹو کا ہٹ دھرمی والا رویہ بھی تابوت میں آخری کیل بن گیا۔
گو کہ سقوط مشرقی پاکستان کے حوالے سے بہت کچھ لکھا گیا ہے لیکن میں خرم مراد مرحوم کی خود نوشت سے ایک اہم اقتباس یہاں پیش کرنا چاہوں گا ، جس میں انہوں نے سقوط مشرقی پاکستان سے قبل کے چند اہم واقعات کو پیش کیا ہے:
یہ سوال بار بار سامنے آتا ہے کہ “کیا مجیب الرحمن پاکستان کے لیے سنجیدہ تھے، اور کیا ان کو اقتدار دے دیا جاتا تو پاکستان ایک رہتا؟” ہمارا اصولی موقف یہ تھا کہ “چونکہ انتخابات ہو گئے ہیں، اسمبلی میں عوامی لیگ کی اکثریت ہے، اس لیے عوامی لیگ کو اقتدار منتقل کر دیا جائے۔” لیکن اس صاف اصولی موقف کے باوجود میں بھٹو صاحب کی اس بات کو بالکل بے وزن نہیں سمجھتا، جس کے مطابق اس بات کا بڑا خطرہ تھا کہ عوامی لیگ اسمبلی کے اجلاس میں آنے کے بعد پاکستان توڑنے کی قرارداد پاس کر دیتی۔ پھر اس کے بعد کسی کے بھی بس میں نہیں تھا کہ پبلک کے نمایندوں کے فیصلہ کو قانونی طور پر روک سکے۔ جبکہ یہ اسمبلی دستور ساز تھی۔
پھر یہ خوف بھی پایا جاتا تھا کہ پاکستان کو اپنے وسائل و ذرائع میں سے علاحدہ ہونے والے حصے کو اثاثہ دینا پڑتا۔ مثال کے طور پر خزانہ، اسلحہ، ہوائی جہازوں، ٹینکوں اور اثاثہ جات میں آدھے سے زیادہ حصہ ادا کرنا پڑتا کیونکہ اسمبلی کی قرارداد سے یہ ایک قانونی اور دستوری کارروائی ہوتی۔ اس کے برعکس بغاوت کے نتیجے میں علاحدگی میں یہ ذمہ داری نہ ہوتی۔ ممکن ہے کہ مغربی پاکستان کے فیصلہ ساز لوکوں کو سامنے یہ بات بھی ہو، اس لیے وہ “بے دام علاحدگی” کو اپنے حصے کےلیے “نفع بخش سودا” تصور کرتے ہوں گے۔ اگرچہ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے 25 مارچ کے آرمی ایکشن کے بعد کراچی جا کر بیان دیا کہ “خدا کا شکر ہے، پاکستان بچا لیا گیا”۔ آرمی ایکشن کے غلط فیصلے کے باوجود، میں بھٹو صاحب جیسے ذہین آدمی سے یہ توقع نہیں رکھتا، کہ انہوں نے یہ بیان محض آرمی ایکشن کے حوالے سے دیا ہوگا۔ یقیناً ان کے سامنے کچھ اور باتیں بھی ہوں گی۔ اگرچہ ان باتوں میں تلخی پیدا کرنے اور ہٹ دھرمی کی آگ بھڑکانے کا ایک بڑا فعال سبب وہ خود بھی تھے۔
25 مارچ 1971ء تک مجیب الرحمٰن نے یہ نہیں کہا کہ “آزاد بنگلہ دیش بننا چاہیے”۔ حالانکہ اس دوران مغربی پاکستانی فوجی حکمرانوں اور مغربی پاکستان جو بہرحال ایک سیاسی اکائی نہیں تھا، بلکہ چار صوبے تھے، اس میں سے دو بڑے صوبوں کے سیاسی قائد مسٹر بھٹو نے مشرقی پاکستانی قیادت کا پیمانہ صبر لبریز کر دیا تھا۔
سقوط مشرقی پاکستان وہ المیہ ہے جس کی سراسر ذمہ داری ہماری فوج پر عائد ہوتی ہے۔ صدیق سالک نے اپنی کتاب “میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا” میں لکھا ہے کہ جنرل یحیی کے ایک جرنیل نے یہ الفاظ ادا کیے تھے “آپ لوگ فکر نہ کریں، ان کالے حرامیوں کو ہم خود پر حکومت نہ کرنے دیں گے”۔ لوگ بھٹو اور مجیب کو اس تقسیم کا ذمہ دار قرار دیتے ہیں حالانکہ یہ چھوٹے کردار تھے اصل اور گھناؤنا کردار فوج نے ادا کیا۔ اور 70ء کے انتخابات کے بعد جمہوریت کا گلہ گھونٹنے کا خمیازہ ہمیں اس صورت میں ہی بھگتنا تھا۔ بھارت جو پہلے ہی موقع کی تلاش میں تھا اس نے صورتحال سے پورا فائدہ اٹھایا۔ بس اتنا کہنا چاہوں گا
وقت کرتا ہے پرورش برسوں
حادثہ ایک دم نہیں ہوتا
 قدرت اللہ شہاب نے لکھا ہے کہ امریکنوں کی طرف سے سینیٹری کا سامان بطور تحفہ آیا، کیبنٹ میں بیٹھے کسی بنگالی نے اس میں سے حصہ مانگا تو مغربی پاکستان کے وزیروں نے قہقہہ مارتے ہوئے کہا

”تم لوگوں نے سینیٹری کا سامان کیا کرنا ہے؟ تمہیں تو رفع حاجت کے لئے کیلوں کا جھنڈ ہی کافی ہے“ ۔
یہاں یاد پڑتا ہے کہ شہاب صاحب نے ”جھنڈ“ کی بجائے ”کیلوں کی گاچھ“ کے لفظ استعمال کئے تھے جس کی حب الوطنی کو مزید اطمینان چاہئے وہ قدرت اللہ شہاب کا ”شہاب نامہ“ پڑھ لے تو خاصا افاقہ ہو جائے گا۔

.
سالہا سال بنگال کا استحصال ہوتا رہا، وہ ذلیل و خوار ہوتا رہا لیکن مغربی پاکستان میں کس کو فکر تھی؟ کتنے ٹائر جلے اور کتنی ہڑتالیں ہوئیں؟ آج بھی اسلام آباد اور لاہور میں خود کش حملے ہوئے تو لوگوںکو یاد آیا کہ وزیرستان میں 2002 سے آپریشن ہو رہا ہے، گھر برباد اور بازار اجڑ گئے ہیں۔ لوگ مر رہے ہیں۔
بس چھوڑیں صاحب۔۔۔ دل نہ جلائیں اپنا بھی اور ہمارا بھی۔۔۔